انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ویمنز ٹی20 ورلڈکپ 2024 کو بنگلہ دیش کے کشیدہ حالات کے باعث متحدہ عرب امارات (یو اے ای) منتقل کردیا گیا ہے۔
آئی سی سی کی رپورٹ کے مطابق ویمنز ٹی20 ورلڈکپ 2024 کے میچز 3 اکتوبر سے 20 اکتوبر تک شیڈول ہے جو اب بنگلہ دیش کے بجائے یو اے ای میں کھیلا جائے گا، ایونٹ کے میچز دبئی اور شارجہ میں کھیلے جائیں گے۔
یاد رہے کہ ویمنز ٹی20 ورلڈکپ 2024 کی میزبانی بنگلہ دیش کو ملی تھی تاہم وہاں کشیدہ حالات کی وجہ سے آسٹریلیا، برطانیہ اور نیوزی لینڈ سمیت متعدد ممالک نے اپنے شہریوں کو بنگلہ دیش سفر نہ کرنے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد آئی سی سی ایونٹ کسی اور ملک منتقل کرنے پر غور کررہی تھی۔
آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو جیوف آلارڈائس نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ویمنز ٹی20 ورلڈکپ کی میزبانی نہ کرنا انتہائی شرم کی بات ہے، ہم جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ ( بی سی بی) نے اس ایونٹ کے لیے بھرپور تیاری کی ہوگی۔
انہوں نے کہا ’میں بی سی بی کی ٹیم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے بنگلہ دیش میں اس ٹورنامنٹ کو کروانے کے لیے ہرممکن کوشش کی لیکن ایونٹ میں شامل متعدد ٹیموں کی حکومت کی جانب سے اپنے شہریوں کو سفری ہدایات جاری کرنے کے بعد یہ ممکن نہیں تھا‘۔
آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ یو اے ای میں ہونے کے باوجود ویمنز ٹی20 ورلڈکپ کا میزبان بنگلہ دیش ہی رہے گا اور مستقبل قریب میں بنگلہ دیش میں آئی سی سی ایونٹ کروانے کے منتظر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں امارات کرکٹ بورڈ کا بی سی بی کی جانب سے ایونٹ کی میزبانی کرنے پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، سری لنکا اور زمبابوے کی میزبانی کی پیشکشوں پر ان کا بھی شکریہ، ہم 2026 میں ان دونوں ممالک میں عالمی ایونٹس دیکھنے کے منتظر ہیں۔
واضح رہے کہ سری لنکا میں ہونے والے ویمنز ایشیاکپ کے فائنل میں سری لنکا ویمنز کرکٹ ٹیم نے پہلی مرتبہ ایشیاکپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا، ایونٹ کے فائنل میں میزبان ٹیم نے بھارت کو 8 وکٹوں سے شکست دی۔
واضح رہے کہ ناہد اسلام کی قیادت میں بنگلہ دیش میں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا تھا، طلبہ تحریک کا آغاز جون میں ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں عدالت نے سرکاری ملازمتوں سے متعلق کوٹہ سسٹم کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس نے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر 6 طلبہ کی ہلاکت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا۔
اس دوران، حکومت نے ملک بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی، اور متعدد شہروں میں کرفیو نافذ کردیا، مجموعی طور پر ان مظاہروں میں 300 اموات ہوئیں۔