متحدہ عرب امارات میں طویل قیام کے لیے گولڈن ویزہ حاصل کرنے کے خواہشمند پروفیشنلز کے لیے کم از کم ماہانہ تنخواہ 30 ہزار درہم کی شرط عائد کی گئی ہے، نئی شرط کے تحت کم از کم تنخواہ میں کمپنیوں کی طرف سے دیئے جانے والے الاؤنسز شامل نہیں ہوں گے۔
خلیج ٹائمز کے مطابق اس سے پہلے عام طور پر حکومت کی طرف سے جو پیکیج شامل کیے جاتے رہے ہیں ان میں بنیادی تنخواہ کے علاوہ مکان کا کرایہ، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر الاؤنسز شامل ہوتے ہیں تاہم امیگریشن سروسز سے متعلق فرم فریگومین کے سینیر مینیجر برائے دبئی نوفیساتو موجیدی نے بتایا ہے کہ گولڈ ویزہ کے لیے کم از کم تنخواہ کی شرط تبدیل کردی گئی ہے، اب تک مجموعی تنخواہ کی بنیاد پر ویزہ جاری کیا جاتا تھا جس میں مختلف الاؤنسز بھی شامل ہوتے تھے لیکن اب یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ ماہانہ کم از کم 30 ہزار درہم خالص تنخواہ ہونی چاہیئے۔
بتایا گیا ہے کہ فیڈرل اتھارٹی برائے شناخت، شہریت، کسٹمز اور پورٹ سیکیورٹی (ICP) کے ایک کسٹمر کیئر ایجنٹ نے اس پیشرفت کی تصدیق کی، اسی طرح دبئی کی فرم عربین بزنس سینٹر کے آپریشن مینیجر اور امیگریشن ایکسپرٹ فیروز خان نے بھی گولڈن ویزہ کے لیے بنیادی تنخواہ کی نئی شرط کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اب درہم 30 ہزار درہم بنیادی تنخواہ والے درخواست دہندگان کو ہی طویل مدتی ویزہ مل رہا ہے، اس نئی شرط کے تحت ویزہ پر مینیجر اور ڈائریکٹر جیسے عہدوں کے حامل افراد یا انجینئرز اور ڈاکٹر جیسے پیشوں کے لیے یو اے ای میں رہائش حاصل کرنا آسان لگتا ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارت نے 2022ء میں گولڈ ویزہ جاری کرنے کی سکیم شروع کی تھی تاکہ دنیا بھر سے مختلف شعبوں کے قابل ترین افراد یو اے ای آئیں اور اس کی معاشی حیثیت کو بلند کریں، گولڈن ویزہ کی پالیسی میں تبدیلی سے خلیجی ملک کو اعلیٰ ترین پروفیشنلز تو حاصل ہوں گے تاہم بہت سے لوگ نئی بنیادی تنخواہ کی ضروریات کو پورا کرنے کی اپنی صلاحیت کے بارے میں فکر مند ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو پہلے پرانے معیار کے تحت الاؤنسز کو شامل کرکے گولڈن ویزہ حاصل کرنے کے اہل تھے۔