اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعتراف کیا ہے کہ حالیہ حالات کے باعث قطر اور متعدد دیگر ممالک نے اسرائیل کو تنہا کردیا ہے۔ ایک اسرائیلی اخبار کو انٹرویو میں نیتن یاہو نے اسرائیل کی صورتحال کو قدیم یونانی ریاست اسپارٹا سے تشبیہ دی اور کہا کہ قطر کی قیادت میں اسرائیل کے خلاف اقتصادی محاصرہ کیا جارہا ہے، جو “سُپر اسپارٹا” جیسی صورتحال ہے جس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو نئی اقتصادی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی صنعتوں، خصوصاً دفاعی اور اسلحہ سازی کے شعبے میں خود انحصاری حاصل کرنا ہوگی تاکہ محاصرے کا توڑ ممکن ہوسکے۔
نیتن یاہو کے مطابق قطر کئی ملکوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کا گھیرا تنگ کرنے کی کوششوں کی قیادت کررہا ہے جبکہ قطر اور چین بھاری سرمایہ لگا کر اسرائیل کے خلاف میڈیا ناکہ بندی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ایران نے ماضی میں ناکہ بندی کی تھی، قطر بھی اسی ماڈل پر اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے، مگر اسرائیل ماضی کی طرح اب بھی اس ناکہ بندی کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔
نیتن یاہو نے مزید کہا کہ اسرائیل کو سب سے بڑا سفارتی چیلنج یورپ میں موجود مسلم اقلیتوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے درپیش ہے، تاہم امریکا اور کئی دیگر ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ان کے بقول اسرائیل کو روایتی اور سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی تاکہ عالمی رائے عامہ پر اپنا مؤقف مستحکم کیا جاسکے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی ایتھنز اور اسپارٹا یا شاید سُپر اسپارٹا کی حالت میں ہیں۔
اس قدیم یونانی ریاست میں لوگوں کو انتہا سے زیادہ سادہ اور اصول پسندی پر مبنی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا تھا، 7 سال کے بچوں کو فوجی تربیت دی جاتی تھی۔
کم غذا دے کر ان پر تشدد کیا جاتا، ذہنی اور جسمانی طورپر سخت جان بنانےکی کوشش کی جاتی۔ انہیں ترغیب دی جاتی کہ محاذ جنگ سے صرف فتح یابی ہی کی صورت میں لوٹاجائے۔