امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر حماس کو بڑی کارروائی کی دھمکی دی اور اہلِ غزہ کے قتل کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر قتل عام بند نہ ہوا تو حماس کے خلاف براہِ راست کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق جمعرات کو ٹروتھ سوشل پر اپنی پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے خبردار کیا کہ “اگر حماس غزہ میں لوگوں کو قتل کرتی رہی، جو کہ معاہدے کا حصہ نہیں تھا، تو ہمارے پاس ان کے اندر جانے اور انہیں ختم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ اس معاملے پر آپ کی توجہ کا شکریہ۔”
صدر ٹرمپ کا یہ بیان جنگ بندی کے فوراً بعد ان کی سخت موقف کی عکاسی کرتا ہے، حالانکہ ان کی انتظامیہ جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ٹرمپ کی یہ سختی مشرق وسطیٰ میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے تین دن بعد سامنے آئی، جب رپورٹس موصول ہوئیں کہ حماس کے مسلح عناصر نے جنگ بندی کا فائدہ اٹھا کر غزہ میں دوبارہ کنٹرول مستحکم کرنے کی کوشش کی اور ایسے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جو اسرائیل کے ساتھ تعاون کے الزامات کے شکار تھے۔
صدر نے واضح نہیں کیا کہ اس بیان میں ’ہم‘ سے مراد کون ہے، اور وائٹ ہاؤس نے سی این این کی وضاحت طلب کرنے والی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔
اگرچہ گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے امریکی فوج کی براہِ راست مداخلت کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہمیں امریکی فوج کی ضرورت نہیں پڑے گی، ہم اسرائیل کی مدد کریں گے“۔
بدھ کو سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگر حماس معاہدے کی پاسداری نہ کرے تو ”جنگ جیسے ہی میں ایک لفظ کہوں، دوبارہ شروع ہو جائے گی۔“
اسرائیل نے بھی حماس پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے، خاص طور پر ان لاشوں کی سست واپسی کے سلسلے میں جو ہلاک شدہ میزبانوں کی تھیں۔
ابتدائی طور پر ٹرمپ نے حماس کی جانب سے بعض گروہوں کے خلاف کاروائیوں کو معمولی قرار دیا تھا مگر تازہ مناظرات اور مبینہ عوامی فائرنگ کی ویڈیوز کی بنیاد پر شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ایک اور موقع پر کہا تھا کہ حماس کو بالا آخر ہتھیار ڈالنے ہوں گے یا ”ہم انہیں بے ہتھیار کر دیں گے“ اور ٹیلی فونک گفتگو میں بتایا تھا کہ ”اسرائیل فوراً ان سڑکوں پر واپس آئے گا جیسے ہی میں ایک لفظ کہوں“۔
ٹرمپ کے بیانات نے علاقائی سیاسی و سیکیورٹی حساسیت کو بڑھا دیا ہے اور جنگ بندی کے نفاذ اور استحکام کے سلسلے میں تشویشوں کو جنم دیا ہے۔