ایران سے منسلک ایک ہیکنگ گروپ “رابرٹ” نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی حلقے سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی ای میلز لیک کرنے کی دھمکی دی ہے۔ گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 100 گیگا بائٹس پر مشتمل حساس ڈیٹا موجود ہے، جس میں وائٹ ہاؤس چیف آف اسٹاف سوزی وائلز، ٹرمپ کی وکیل لنڈسے ہیلیگن، مشیر راجر اسٹون اور سابق فحش اداکارہ اسٹورمی ڈینیئلز کی ای میلز شامل ہیں۔
عالمی میڈیا کو دی گئی ایک حالیہ چیٹ میں ہیکرز نے دعویٰ کیا کہ وہ اس ڈیٹا کو فروخت کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ گروپ اس سے قبل بھی 2024 کے صدارتی انتخابات سے کچھ عرصہ قبل کچھ ای میلز منظرِ عام پر لا چکا ہے۔
امریکی اٹارنی جنرل پم بانڈی نے اس سائبر حملے کو “ناقابلِ معافی جرم” قرار دیا ہے، جبکہ ایف بی آئی ڈائریکٹر کاش پٹیل نے خبردار کیا ہے کہ “قومی سلامتی پر حملے میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی”۔
دوسری جانب امریکی سائبر سیکیورٹی ایجنسی “سی آئی ایس اے” نے اس واقعے کو “ڈیجیٹل پروپیگنڈا” اور “منصوبہ بند بدنامی کی مہم” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد صدر ٹرمپ اور ان کے قریبی ساتھیوں کو نشانہ بنانا ہے۔
لنڈسے ہیلیگن، راجر اسٹون اور اسٹورمی ڈینیئلز کے ترجمانوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے، جبکہ اقوام متحدہ میں ایرانی مشن کی جانب سے بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ایران ماضی میں ایسے تمام الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔
یاد رہے کہ “رابرٹ گروپ” پہلی بار 2024 کے انتخابی مرحلے کے آخری مہینوں میں منظرِ عام پر آیا تھا۔
اس وقت بھی گروپ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کے ای میل اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔
رائٹرز نے اس وقت منظر عام پر آنے والی چند ای میلز کی تصدیق کی تھی، جن میں ٹرمپ اور سابق صدارتی امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کے درمیان مبینہ مالی معاہدے کا ذکر تھا۔
بعدازاں امریکی محکمہ انصاف نے ستمبر 2024 میں ایک فردِ جرم میں الزام عائد کیا تھا کہ اس کارروائی کے پیچھے ایران کی پاسدارانِ انقلاب کا ہاتھ ہے، تاہم ہیکرز نے ان الزامات پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ابتدا میں رابرٹ گروپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ “ریٹائر” ہو چکے ہیں اور مزید لیکس نہیں کریں گے۔
مگر ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ اور اس کے بعد امریکی بمباری کے تناظر میں گروپ نے دوبارہ سرگرمی کا آغاز کر دیا ہے۔
گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود ڈیٹا کو فروخت کے لیے تیار کر رہا ہے اور عالمی میڈیا سے اپیل کرتا ہے کہ اس معاملے کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے۔
امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ کے محقق فریڈرک کیگن کے مطابق ایران اس وقت براہ راست فوجی ردعمل سے گریز کر رہا ہے اور اس کی خفیہ ایجنسیاں ایسے اقدامات کر رہی ہیں جو امریکہ یا اسرائیل کو دوبارہ حملے پر نہ اکسائیں۔
امریکی سائبر حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ایران نے اب تک کوئی بڑا سائبر حملہ نہیں کیا، تاہم امریکی کمپنیوں اور بنیادی ڈھانچے کے لیے خطرہ اب بھی موجود ہے۔