انسانی حقوق کے ایک گروپ نے بدھ کے روز دعویٰ کیا کہ گزشتہ ہفتے انڈونیشیا میں پرتشدد مظاہروں کے دوران کم از کم 10 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ بیان ان کئی اداروں کی رپورٹس میں شامل ہے جو اس بدامنی کے نتیجے میں ہلاکتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی معیشت میں یہ احتجاج اُس وقت بھڑکا جب عوام نے بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات اور قانون سازوں کو دی جانے والی پرتعیش مراعات کے خلاف آواز بلند کی۔
صورتحال اس وقت مزید سنگین ہوگئی جب ایک نیم فوجی دستے کے ہاتھوں ایک نوجوان ڈرائیور کے قتل کی ویڈیو وائرل ہوئی، جس نے عوامی غصے کو پولیس کے خلاف بھی موڑ دیا۔
ریاستی ادارے نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس (کومنَس ہام) نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کے پاس 10 ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
کومنَس ہام کی سربراہ انیس ہدیہ کا کہنا تھا کہ ’’اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ان میں سے کچھ افراد ریاستی اہلکاروں کی جانب سے طاقت کے حد سے زیادہ استعمال کا نشانہ بنے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہلاکتیں گریٹر جکارتہ، مکاسر (جنوبی سولاویسی)، وسطی جاوا اور پاپوا کے علاقوں میں رپورٹ ہوئیں۔
ادارے کے مطابق 900 سے زائد افراد زخمی جبکہ ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، تاہم زیادہ تر کو بعد میں رہا کردیا گیا۔ انیس ہدیہ نے خبردار کیا کہ یہ اعداد و شمار حتمی نہیں اور مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
اے ایف پی نے گزشتہ ہفتے کم از کم 6 ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی، تاہم تازہ دعووں کے مطابق یہ تعداد زیادہ ہے۔
یہ بدامنی صدر پرابوو سوبیانتو کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا سیاسی و عوامی بحران قرار دی جا رہا ہے، جس نے حکومت کو مجبور کیا کہ قانون سازوں کو دی جانے والی مراعات واپس لی جائیں۔
مقامی این جی او لیگل ایڈ فاؤنڈیشن (وائی ایل بی ایچ آئی) نے بھی 10 ہلاکتوں اور سیکڑوں زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔
جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈونیشیا نے اسی تعداد کو دہراتے ہوئے حکومت سے ’’آزاد اور شفاف تحقیقات‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
کمیشن فار دی ڈِس اپیئرڈ اینڈ وکٹمز آف وائلنس (کونتراس) نے کہا کہ پیر تک کم از کم 20 افراد لاپتہ ہیں۔
ابتدائی طور پر ان احتجاجی مظاہروں کے باعث صدر پرابوو کو چین کا طے شدہ دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔
تاہم منگل کی رات اسٹیٹ سیکرٹریٹ کے وزیر پراسیتیو ہادی نے کہا کہ صدر نے فیصلہ کیا ہے کہ حالات پرسکون ہو گئے ہیں اور وہ بہرحال چین کا دورہ کریں گے۔
پرابوو نے بدھ کے روز بیجنگ میں ایک شاندار فوجی پریڈ میں شرکت کی اور ان کی ملاقات چینی صدر شی جن پنگ سے بھی طے ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بھی ’انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں پر فوری، جامع اور شفاف تحقیقات‘ کا مطالبہ کیا۔
قومی پولیس نے اے ایف پی کی تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔