حسینہ واجد کے خلاف قتل کی تحقیقات کا آغاز

حسینہ واجد کے خلاف قتل کی تحقیقات کا آغاز


بنگلہ دیش کی ایک عدالت کے حکام پر معزول وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کی انتظامیہ میں شامل 6 اہم عہدیداروں کے خلاف طلبہ تحریک کے دوران پولیس کے ہاتھوں ایک شہری کے قتل کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق بنگلہ دیش کے وکیل مامون میاں نے بتایا کہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کی حکومت کے 6 اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش کے ایک شہری نے مامون میاں کی وساطت سے عدالت میں کیس دائر کیا، جس کے بعد شہری کے وکیل عدالتی حکمنامہ لے کر پولیس اسٹیشن پہنچے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ڈھاکا میٹروپولیٹن کورٹ نے پولیس کو حکم دیا ہے ’وہ ملزمان کے خلاف قتل کے مقدمہ کو تسلیم کریں‘، جو بنگلہ دیشی قانون کے مطابق مجرمانہ تفتیش کا پہلا قدم ہے۔

مقدمہ میں بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم کے علاوہ ان کے دور حکومت کے وزیر داخلہ اسد الزمان خان، عوامی لیگ پارٹی کے جنرل سیکریٹری عبدالقادر کے نام بھی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ شیخ حسینہ واجد کی جانب سے تعینات کیے گئے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس چوہدری عبداللہ الممون اور دیگر 4 اعلیٰ افسران کے نام بھی شامل ہیں، جنہوں نے پہلے ہی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

مقدمہ میں انٹیلی جنس برانچ کے سربراہ ہارون الرشید اور ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے سینئر افسران حبیب الرحمٰن اور بپلوب کمار سرکار کے نام بھی شامل ہیں۔

مقدمہ کے متن کے مطابق حسینہ واجد سمیت نامزد رہنماؤں کی ایما پر پولیس افسران نے 19 جولائی کو مظاہرین پر گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں میرے موکل جو ایک دکاندار تھے، جاں بحق ہوگئے۔

عدلت نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزمان کے خلاف قتل کی تحقیقات کا آغاز کریں اور چارج شیٹ عدالت میں جمع کرائیں۔

واضح رہے کہ ناہد اسلام کی قیادت میں بنگلہ دیش میں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا تھا، طلبہ تحریک کا آغاز جون میں ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں عدالت نے سرکاری ملازمتوں سے متعلق کوٹہ سسٹم کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

بنگلہ دیش میں 50 فی صد سے زائد سرکاری ملازمتیں کوٹہ سسٹم کے تحت دی جاتی تھیں جس میں 30 فی صد کوٹہ 1971 میں بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں حصہ لینے والوں کی اولاد کے لیے مختص تھا۔

کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس نے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر 6 طلبہ کی ہلاکت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا۔

اس دوران، حکومت نے ملک بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی، اور متعدد شہروں میں کرفیو نافذ کردیا، مجموعی طور پر ان مظاہروں میں 300 اموات ہوئیں۔

تاہم، طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے آغاز کے پہلے روز تقریباً 100 اموات ہوئی تھیں جس کے بعد وزیراعظم حسینہ واجد مستعفیٰ ہوکر ڈھاکا میں اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت روانہ ہو گئی تھیں۔

وزیر اعظم حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے بعد محمد یونس کو مظاہروں کی قیادت کرنے والے طلبہ کے مطالبے پر عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، ایوان صدر میں ہونے والی تقریب میں بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے ڈاکٹر محمد یونس سے حلف لیا۔

خیال رہے کہ عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر یونس کا عہدہ چیف ایڈوائز کا ہے جو وزیر اعظم کے برابر ہے۔




Courtesy By Such News

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top