ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ ایران اپنا تمام افزودہ یورینیم حوالے کرے، تاہم ایران ایسا ہرگز نہیں کرے گا۔ ہفتے کے روز ایرانی صدر نے امریکا کے مطالبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے “ناقابل قبول” قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ فرانس نے پابندیوں میں ایک ماہ کی تاخیر کی پیشکش کی تھی۔
لیکن امریکا یورپ پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ ایران کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب جوہری مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایران پر اقوام متحدہ کی وسیع پابندیوں کے دوبارہ نافذ ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے آئی اے ای اے کی رپورٹ کے مطابق، 13 جون تک ایران کے پاس 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کا ذخیرہ تقریباً 440.9 کلوگرام تک پہنچ چکا تھا۔
جو 17 مئی کے بعد 32.3 کلوگرام کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
اگرچہ ایران دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
لیکن 60 فیصد تک یورینیم کی افزودگی ایسے درجے تک پہنچ چکی ہے جس کا پرامن استعمال ممکن نہیں سمجھا جاتا۔
ایران نے حالیہ عرصے میں بین الاقوامی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات تک رسائی دی۔
لیکن مغربی طاقتوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اعلیٰ سطحی سفارت کاری کے باوجود ایران کی پیش رفت کو ناکافی قرار دیا اور پابندیوں میں تاخیر سے انکار کر دیا۔
ایک ماہ قبل یورپی طاقتوں نے “اسنیپ بیک” طریقہ کار کو فعال کیا، جس کے تحت ایران پر پابندیاں دوبارہ عائد کی جا سکتی ہیں۔
یورپی ممالک نے تہران پر جوہری معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
خاص طور پر ان جوابی اقدامات کے بعد جو ایران نے جون میں اسرائیلی اور امریکی حملوں کے جواب میں کیے، جن میں فوجی اور جوہری اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
صدر پزشکیاں نے نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ واشنگٹن نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا تمام افزودہ یورینیم امریکا کے حوالے کر دے۔
اور اس کے بدلے میں صرف تین ماہ کی پابندیوں سے نرمی دی جائے گی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہم اپنے آپ کو اس طرح کے جال میں کیوں ڈالیں کہ ہر مہینے ہمارے گلے میں پھندا ہو؟
ساتھ ہی انہوں نے امریکا پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یورپی ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ وہ کسی بھی سمجھوتے پر نہ پہنچیں۔
یہ بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جوہری پروگرام پر تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے، اور مستقبل قریب میں پابندیوں کی واپسی خطے میں مزید کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔