آج ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں نوبل کمیٹی امن کے نوبل انعام کا اعلان کرے گی، جو اپنے بانی الفریڈ نوبل کے نظریات کے مطابق کسی شخصیت کو دیا جائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نوبل امن انعام کے لیے کافی پرامید نظر آ رہے ہیں اور اعلان سے صرف چند گھنٹے قبل خود کو اس انعام کا حقیقی حقدار سمجھ رہے ہیں۔
بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر انہیں یہ انعام نہیں دیا گیا تو یہ امریکہ کے لیے بہت بڑی توہین ہوگی۔
ٹرمپ کے حامیوں کا موقف ہے کہ انہوں نے عالمی امن کے لیے متعدد اہم اقدامات کیے، جن میں حالیہ غزہ جنگ بندی معاہدہ، ابراہام معاہدے اور کووِڈ ویکسین کی فوری تیاری شامل ہیں۔
ان کے مطابق، ٹرمپ نے سات جنگوں کا خاتمہ کیا اور روس-یوکرین تنازعہ کے حل کے لیے بھی کوششیں کیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ایسے وقت سامنے آیا جب نوبل امن انعام کے اعلان میں صرف دو دن باقی تھے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، اسرائیل کے سابق اعلیٰ مذاکرات کار کا کہنا ہے کہ نوبل انعام کے اعلان کی ٹائم لائن نے دونوں فریقین پر دباؤ ڈالا تاکہ معاہدہ جلد طے پا سکے اور اس کا فائدہ ٹرمپ کو پہنچے۔
ٹرمپ کی حمایت محسوس کرتے ہوئے چند ممالک نے انہیں کھل کر نامزد بھی کیا ہے، جن میں پاکستان، اسرائیل، کمبوڈیا اور تائیوان شامل ہیں۔ امریکہ میں بھی کچھ اہم شخصیات، جیسے Pfizer کے سی ای او البرٹ بورلا اور سینیٹر بل کیسیڈی، نے انہیں نوبل امن انعام کے لیے موزوں قرار دیا ہے۔
دوسری جانب، نوبل کمیٹی کا طریقہ کار مکمل طور پر خفیہ اور غیرسیاسی سمجھا جاتا ہے۔
اوسلو کے پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر نینا گریگر کے مطابق، نوبل انعام عموماً گزشتہ سال کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر دیا جاتا ہے، اور 2024 میں ٹرمپ منتخب ضرور ہو چکے تھے، لیکن انہوں نے صدر کا عہدہ ابھی سنبھالا نہیں تھا۔
علاوہ ازیں نوبل کمیٹی کے سربراہ نے تصدیق کی ہے کہ اس سال کے انعام پر فیصلہ پیر کے روز ہی ہو چکا تھا۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس سال کی ممکنہ فہرست میں ٹرمپ کا نام شامل نہیں، جب کہ وہ ادارے شامل ہیں جن سے ٹرمپ کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے، جیسے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس۔
ٹرمپ خود بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ نوبل انعام کے مستحق ہیں۔
اگر آج ہونے والے اعلان میں ٹرمپ کا نام نہ آیا تو بھی اُن کے حامی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ سینیٹر کیسیڈی اور نمائندہ کلاڈیا ٹینی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال ٹرمپ کو دوبارہ نامزد کریں گے۔
نوبل انعام کی تاریخ میں ٹرمپ جیسی اعلانیہ اور کھلی مہم کم ہی دیکھی گئی ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے والے یہ اقدامات ٹرمپ کو دنیا کے سب سے بڑے امن انعام کا حقدار ٹھہرا سکیں گے، یا پھر یہ دوڑ اگلے برسوں تک جاری رہے گی۔