اسرائیل نے گزشتہ ہفتے غزہ جانے والی امداد روکنے کے بعد اب جنگ زدہ غزہ کی بجلی بھی منقطع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق غزہ کی بجلی منقطع کرنے کا اعلان اسرائیلی وزیر توانائی ایلی کوہین کی جانب سے کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقوں فرانسیسکا البانیزے نے اسرائیلی فیصلے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر ‘Genocide Alert’ (نسل کشی کا انتباہ) لکھتے ہوئے کہا کہ بجلی کی بندش کے نتیجے میں صاف پانی کی دستیابی بھی ممکن نہیں رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ “وہ ممالک جو اسرائیل پر پابندیاں یا اسلحے کی ترسیل پر پابندی عائد نہیں کر رہے، وہ اس تاریخی اور قابلِ روک تھام نسل کشی میں اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔”
بجلی کی بندش کے بعد غزہ میں پانی صاف کرنے والے پلانٹس بھی کام نہیں کر سکیں گے، جس سے لاکھوں فلسطینیوں کو پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام کو “جنگی جرم” اور “اجتماعی سزا” قرار دیا ہے۔
دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا غزہ کی بجلی منقطع کرنے کا فیصلہ بلیک میلنگ ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کےترجمان نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی بجلی منقطع کرنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی بجلی منقطع کرنے کا فیصلہ ناقابل قبول ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ غزہ کی بجلی منقطع کرنے کے غاصبانہ فیصلے کی مذمت کرتے ہیں۔
حماس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل یہ اس لیے کر رہا ہے تاکہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
واضح رہیں غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کی بات چیت کے لیے اسرائیلی وفد آج قطری دارالحکومت دوحا جائے گا۔
اس حوالے سے امریکی سفیر ایڈم بوہلر (Adam Boehler) نے کہاکہ امریکا، حماس بات چیت پر اسرائیل کی تشویش کو سمجھتا ہے مگر یہ ایسا معاہدہ ہوگا جس کےتحت امریکی ہی نہیں تمام یر غمالی رہاہوسکیں گے۔