کیا مصنوعی ذہانت انسانوں سے زیادہ بجلی استعمال کرتی ہے؟ – ہم نیوز

کیا مصنوعی ذہانت انسانوں سے زیادہ بجلی استعمال کرتی ہے؟ – ہم نیوز


اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت اب ہماری روزمرہ زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمیں کسی بھی معلومات یا مواد تک بہت تیزی سے رسائی فراہم کرتا ہے۔

اگرچہ مصنوعی ذہانت پر شک کرنا آسان ہے، مگر یہ صرف انسانی ذہانت کا مجموعہ نہیں بلکہ خود سے نئے تصورات اور خیالات بنانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ تاہم، جہاں لوگ اسے تعلیمی اور تخلیقی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، وہیں بعض اسے تجارتی یا منفی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔

بظاہر اے آئی ہماری زندگی کو آسان بنارہی ہے، مگر غیر محسوس انداز میں ہم اس کی ایک بڑی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں، یعنی توانائی کی قیمت۔ جنریٹو اے آئی ماڈلز کو کام کرنے اور تربیت حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔

کسی اے آئی ماڈل کو تربیت دینا دراصل اسے بے پناہ ڈیٹا فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ جتنا زیادہ اور پیچیدہ ڈیٹا ہوگا، ماڈل کو اتنی ہی زیادہ توانائی درکار ہوگی۔ تحقیق کے مطابق، چیٹ جی پی ٹی پر کچھ تلاش کرنا گوگل سرچ کے مقابلے میں تقریباً دس گنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جنریٹو اے آئی ماڈل سے صرف ایک تصویر بنانے میں اتنی توانائی خرچ ہوتی ہے جتنی ایک اسمارٹ فون کو چارج کرنے میں لگتی ہے۔

ان ماڈلز کو چلانے کے لیے بڑے ڈیٹا سینٹرز استعمال کیے جاتے ہیں، جہاں طاقتور پروسیسرز اور کولنگ سسٹمز مسلسل کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مراکز میں توانائی کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق، سال 2023 میں دنیا بھر کے ڈیٹا سینٹرز میں استعمال ہونے والی توانائی کا تقریباً 8 فیصد حصہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے متعلق تھا، اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شرح 2028 تک 20 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ اے آئی ماڈلز کی تربیت اور ان کے روزمرہ استعمال کے دوران توانائی کے خرچ کو محدود کرنا ضروری ہے۔ اسی مقصد کے لیے محققین ایسے نئے ماڈلز تیار کر رہے ہیں جو کم توانائی میں بہتر نتائج دے سکیں۔

ان میں ڈیپ سیک جیسے توانائی کے مؤثر ماڈلز امید کی نئی کرن بن سکتے ہیں، جو مستقبل میں اے آئی کو زیادہ ماحول دوست اور پائیدار بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

اے آئی نے منفرد ایپ سورا متعارف کرا دی



Courtesy By HUM News

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top