مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بڑھتے ہوئے استعمال نے زندگی کو بے حد آسان بنادیا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق اس سے انسان کی یادداشت اور سوچنے کی صلاحیت پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اے آئی کی سہولتوں کے باعث لوگ رفتہ رفتہ اپنے ذہن پر کم انحصار کرنے لگے ہیں، جس کے نتیجے میں ضروری معلومات یاد رکھنے اور سماجی مسائل حل کرنے کی صلاحیت میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں معروف ماہرِ تعلیم نے مصنوعی ذہانت کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اے آئی کو خطرناک نہیں سمجھتیں کیونکہ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے نئے انقلابات سے گزرتا آیا ہے۔ “پہلے لوگ راستے زبانی یاد رکھتے تھے، پھر جب کاغذی نقشے آئے تو زندگی آسان ہوگئی۔ اسی طرح ٹریکٹر کی ایجاد نے کھیتوں میں کام آسان کیا، مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس سے کسان سست ہوگئے۔”
انہوں نے کہا کہ اگر ٹیکنالوجی کا استعمال صرف محنت سے بچنے کے لیے کیا جائے تو یہ نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، لیکن اگر اسی کے ذریعے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے تو یہ سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ “جیسے اگر کوئی کیلکولیٹر پر اندھا دھند انحصار کرے اور دماغ استعمال نہ کرے تو مستقبل میں وہ ایک اچھا اکاؤنٹنٹ نہیں بن سکے گا۔”
ان کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں شامل کیا جائے۔ “اگر طلبہ صرف رٹا لگا کر امتحان پاس کرلیں تو یہ کافی نہیں، اصل مقصد ان کی تخلیقی اور تجزیاتی صلاحیتوں کو ابھارنا ہونا چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اساتذہ کو بچوں کو اے آئی سے مکمل اجتناب کا مشورہ دینے کے بجائے یہ سکھانا چاہیے کہ اسے ایک مددگار ٹول کے طور پر استعمال کریں۔ “اے آئی پر مکمل انحصار انسان کی صلاحیتوں کو متاثر کرسکتا ہے، مگر اگر اسے سمجھداری سے استعمال کیا جائے تو یہ تعلیمی ترقی کے لیے بہترین موقع ثابت ہوسکتا ہے۔”
ابوظہبی میں اے آئی سے خطرناک بیماروں کی قبل از وقت نشاندہی کا نظام متعارف