ایچ-1بی ویزا کی درخواستوں پر نئی 100,000 ڈالر کی سالانہ فیس مسلط کرنے سے ہندوستانی ٹیکنالوجی سروسز کمپنیوں کے عالمی سطح پر کام میں خلل پڑ سکتا ہے جو ہنر مند پیشہ ور افراد کو امریکا بھیجتی ہیں۔
اس خوف کا اظہار ہندوستان کی آئی ٹی انڈسٹری کی تنظیم ناس کام نے ہفتہ کو کیا۔
اس سے پہلے وائٹ ہاؤس نے جمعہ کو نئی فیس کا اعلان کیا، جس کے بعد کچھ بڑی امریکی ٹیک فرموں نے ویزا رکھنے والے غیر ملکی شہریوں، جو ان کے لیے کام کرتے ہیں، کو مشورہ دیا کہ وہ ملک میں رہیں یا جلدی واپس آ جائیں۔
کیا بھارت ہی اصل نشانہ ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانے سے اس بھاری فیس کے نفاذ کو بھارت کو خاص طور پر نشانہ بنانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایچ-1بی ویزہ حاصل کرنے والوں میں سے 70 فیصد کا تعلق بھارت سے ہوتا ہے۔
اسے سے پہلے ٹرمپ بھارت پر 50 فیصد ٹیرف بھی نافذ کر چکے ہیں جس کی وجہ روسی تیل کی خریدوفروخت کے زریعے اربوں ڈالر کمانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی یہ پالیسی روس کی یوکرین جنگ جاری رکھنے کو منافع بخش بناتی ہے۔
ٹرمپ کا بھارت کو بڑا جھٹکا، ایچ ون بی ویزا پر سالانہ ایک لاکھ ڈالر فیس عائد
نئی فیس ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ملک کی عارضی ملازمت کے ویزا سسٹم کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی سب سے اعلیٰ سطح کی کوشش ہے۔
غیر یقینی صورتحال
ناس کام، جو ہندوستان کی 283 بلین ڈالر کی آئی ٹی اور بزنس پروسیس آؤٹ سورسنگ انڈسٹری کی نمائندگی کرتی ہے، نے کہا کہ پالیسی کا اچانک آغاز ہندوستانی شہریوں پر اثر انداز ہوگا اور ملک کی ٹیکنالوجی سروسز فرموں کے جاری آن شور پروجیکٹس کی تسلسل میں خلل ڈالے گا۔
اس نے یہ بھی کہا کہ نئی پالیسی کے لیے ایک دن کی ڈیڈ لائن نے “دنیا بھر کے کاروباروں، پیشہ ور افراد اور طلباء کے لیے کافی غیر یقینی پیدا کر دی ہے۔”
ناس کام کے مطابق نئی پالیسی کا امریکا کی جدت کی صلاحیت اور اس سے منسلک نظام کیساتھ ساتھ عالمی مندڈی میں پر “منفی اثرات” پڑ سکتے ہیں۔ اس وجہ سے کمپنیوں کے لیے “اضافی لاگت برداشت کرنا ہوگی”۔
مائیکروسافٹ، جے پی مورگن اور ایمیزون نے اعلان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایچ-1بی ویزا رکھنے والے ملازمین کو امریکہ میں رہنے کا مشورہ دے دیا۔
جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، ٹرمپ نے امیگریشن پر وسیع کریک ڈاؤن شروع کیا ہے جس میں قانونی امیگریشن کی بعض اقسام کو محدود کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔