پاکستان کرکٹ

پاکستان کرکٹ


اسلام آباد ( زاہد گشکوری، مجاہدحسین، ابوبکرخان ) پاکستان کرکٹ کی دلچسپ کہانی، کبھی شاندار فتوحات کے زبردست مواقع اور کبھی عبرتناک  شکست کے مراحل ، کرکٹ ٹیم کی کارکردگی مستحکم کیوں نہیں؟ مسئلہ کہاں ہے؟ کرکٹ ٹیم کی تباہی کا ذمہ دار کون؟۔ سیاست یا کرکٹ بورڈ کی سیاست؟ اس حوالے سے ہم انوسٹی گیٹس نے تحقیقات کیں۔ 

دنیا کی مختلف ٹیموں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے کھیل کو بہتر بنایا ہے لیکن پاکستان میں کرکٹ کی کہانی دلچسپ اور عجیب ہی نہیں پیچیدہ بھی ہے۔ایک ایسی ٹیم جو دوسری ٹیموں کی نسبت کمزور ہوتے ہوئے بھی بعض اوقات کرکٹ ورلڈ کپ اور چیمپیئنز ٹرافی جیسے ٹورنامنٹس جیت لیتی ہے۔ اب ایک طویل عرصے سے اس کی کارکردگی غیر مستحکم ہے۔

دنیا دیکھ لے، پاکستان پرامن اورکھیلوں سے محبت کرنیوالا ملک ہے، چیئرمین پی سی بی

ہم انویسٹی گیٹس کی ٹیم نے قومی کرکٹ ٹیم کے ماضی اور حال کو کنگھالنے کی کوشش کی ہے اور ایسے ماہرین اور ذمہ داروں کے ساتھ بات کی ہے جو ہماری کرکٹ کہانی کو بہت قریب سے جانتے ہیں اور پاکستانی کے لیے کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ پی سی بی میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہماری کرکٹ کو سیاست کھا گئی ہے اور جب بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم بُری کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے،سب سے پہلا الزام کرکٹ بورڈ اور اس کے ذمہ داروں پر لگایا جاتا ہے کہ وہ سیاست کا شکار ہیں۔ اس وقت پاکستانی کرکٹ ٹیم ایک خاص قسم کی ٹوٹ پھوٹ سے گزر رہی ہے اور آئی سی سی چیمپینز ٹرافی میں بہت بُری کارکردگی کے باعث اس کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

تینوں فارمیٹ میں پاکستان کا ہمیشہ ایک نمایاں مقام رہا ہے لیکن اس وقت اِن فارمیٹس میں قومی کرکٹ ٹیم تیزی کے ساتھ زوال کی طرف گامزن ہے۔

انتظامی طور پر عدم استحکام پاکستان کرکٹ بورڈ کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے ہمیشہ میرٹ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔جس سے کرکٹ ٹیم کی کارکردگی خراب ہوتی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں احتساب کے عمل کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔

پی سی بی نے کوربن بوش پر پی ایس ایل کھیلنے پر ایک سال کی پابندی عائد کر دی

ہم انویسٹی گیٹس کو حاصل ہونے والی دستاویزات میں موجود اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ انتظامیہ نے لگ بھگ سات ارب روپے کے ٹھیکے مبینہ طور پر من پسند لوگوں کو دیدئیے، ان میں تو ایک ایسی کمپنی بھی شامل ہے جسے ہر بار کرکٹ بورڈ کے ہی ٹھیکے ملتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کرکٹ بورڈ کروڑوں روپے سالانہ معاوضہ لینے والے ملازمین کا بھی احتساب کرنے سے قاصر ہے۔

ماہرین کرکٹ اور سابق کھلاڑیوں کا موقف ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر ڈومیسٹک کرکٹ کو نظر انداز کیا ہے جس کی وجہ سے نیا ٹیلنٹ بھی نظر انداز ہوتا ہے۔اس سے پہلے اداروں کی ٹیموں کی صورت میں ہمیشہ نیا ٹیلنٹ سامنے آتا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے جب سے اداروں میں کرکٹ کا بحران آیا ہے پاکستان کرکٹ ٹیم بھی بحران کا شکار ہو گئی ہے۔

جب بھی دنیا میں کہیں کرکٹ کا کوئی بڑا ٹورنامنٹ آتا ہے ہمارے ہاں ایک طرح سے بحران شروع ہوجاتا ہے اور عجلت میں ٹیم تیار کی جاتی ہے کیوں کہ کوئی مستقل سٹرکچر اور پالیسی وجود نہیں رکھتی اس لیے ٹیم کی تیاری ہی سے محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہماری ٹیم کس قسم کے نتائج حاصل کر سکے گی۔

سابق کپتان ماجد خان نے پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کی بحالی کا ایک پلان بنا کر دیا اور اس بات پر زور دیا کہ اگر حکومتیں اور کرکٹ بورڈ چاہے تو پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ وہی کردار ادا کرسکتی ہے جو انگلینڈ،آسڑیلیا اور نیوزی لینڈ میں ڈومیسٹک کرکٹ کرتی ہے اور اِن ممالک میں وہاں کے کرکٹ بورڈز کو کبھی بھی ٹیم سلیکشن میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا کیونکہ ڈومیسٹک کرکٹ اتنی جاندار ہے کہ وہ سیلکٹرز کو ہر قسم کی صورت حال میں کھیلنے کے لیے کھلاڑی مہیا کرتی رہتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کرکٹ کوچنگ کا معیار دوسری ٹیموں کے مقابلے میں کمزور ہے۔ کوچنگ اور تکنیک کی کمی نئے ٹیلنٹ کو پالش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

خاص طور پر ٹیم سلیکشن کے معیار کو کسی بھی فریم ورک میں رکھنا یا کسی ایک پیمانے کی مدد سے اس کو جانچنا کبھی ممکن نہیں رہا،بعض اوقات اس قسم کے اچانک فیصلے اور سلیکشن سامنے آجاتی ہے کہ لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ کس قسم کا فیصلہ ہے اور کس معیار کو سامنے رکھ کر کیا گیا۔

چیئرمین پی سی بی محسن نقوی صدر ایشین کرکٹ کونسل مقرر

ڈاکٹر نعمان نیاز کا کہنا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ پاکستان ایک طویل عرصے تک انٹرنیشنل کرکٹ سے بھی محروم رہا ہے اور لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہوئے حملے کے علاوہ کراچی میں بھی نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، جس کے بعد پاکستان میں انٹرنیشل کرکٹ کے دروازے بند ہوئے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو دبئی وغیرہ میں جا کر کھیلنا پڑا۔اس دوران پاکستان کرکٹ اور خاص طور پر نئے پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ میں مواقع کم ہو گئے جس کا اثر واضح طور پر پاکستان میں کرکٹ کے کھیل پر پڑا۔

2025 میں پاکستان میں آئی سی سی کرکٹ چیمپئنز ٹرافی کے ساتھ ہی یہ اُمید بھی مستحکم ہو رہی ہے کہ ایک بار پھر پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ماضی کی طرح تسلسل کے ساتھ کھیلی جائے گی اور ہمارے کرکٹ میدان نئے سرے سے پوری طرح آباد ہو جائیں گے۔نیوزی لینڈ،انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیموں کے دوروں کے بعد چیمپنز ٹرافی کا انعقاد یہ سب کچھ پاکستان کرکٹ اور نئے پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں کے لیے حوصلہ افزا ہیں۔

دوسری طرف پاکستان میں سپر لیگ کے سیزنز مقامی سطح پر کرکٹ کی ترقی اور نئے کھلاڑیوں کو بہتر مواقع فراہم کرنے کا کام احسن انداز میں کر رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی ٹیم کو کئی نئے بلاصلاحیت کھلاڑی بھی پاکستان سُپر لیگ سے حاصل ہوئے ہیں اور ماہرین کرکٹ اس کو پاکستان کی کرکٹ کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔

 



Courtesy By HUM News

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top