26 ویں ترمیم کیس: آئینی بینچ فل کورٹ کیسے تشکیل دے سکتا ہے؟ سپریم کورٹ

26 ویں ترمیم کیس: آئینی بینچ فل کورٹ کیسے تشکیل دے سکتا ہے؟ سپریم کورٹ


سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران وکلا اور 8 رکنی آئینی بینچ کے درمیان فل کورٹ کی تشکیل، بینچ کے دائرہ اختیار اور آئینی شقوں پر تفصیلی بحث ہوئی۔

سابق سینیئر وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے استدعا کی کہ موجودہ بینچ اس اہم آئینی معاملے کی سماعت پر سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے ڈائریکشن دے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ بینچ، جو آئینی نوعیت کا ہے، جوڈیشل اختیارات استعمال کرتے ہوئے فل کورٹ کی تشکیل کا اختیار رکھتا ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچز کی مدت 30 نومبر 2025 تک بڑھا دی گئی

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا موجودہ بینچ فل کورٹ تشکیل دینے کا مجاز ہے اور اگر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد تعینات ہونے والے ججز کو ہٹا دیا جائے تو باقی کیا ہوگا؟ اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وہ صرف اُن ججز پر مشتمل فل کورٹ کی بات کر رہے ہیں جو 26ویں ترمیم سے پہلے سپریم کورٹ میں موجود تھے۔

جسٹس عائشہ ملک، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس امین الدین اور دیگر ججز نے بھی سوالات اٹھائے کہ کیا آرٹیکل 191 اے کو نظرانداز کر کے جوڈیشل اختیارات استعمال کیے جا سکتے ہیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے کئی بار آئین پر انحصار کیا ہے، ترمیم پر نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم آرٹیکل 191 اے کو نظرانداز کریں تو پھر ہم عدالت میں بیٹھے ہی کیوں ہیں؟ جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ایسا کب ہوا کہ کوئی جج سپریم کورٹ میں آیا ہو اور پھر واپس بھیج دیا گیا ہو؟

ہمارے بس میں نہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے پیچھے چلے جائیں، سپریم کورٹ

عدالت میں وکیل کی جانب سے واضح کیا گیا کہ وہ فل کورٹ سے مراد تمام ججز نہیں بلکہ وہ ججز ہیں جو 26ویں ترمیم سے پہلے تعینات ہوئے تھے۔ اس پر جسٹس مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم اپنے دوسرے ساتھی ججز کو نظرانداز کر سکتے ہیں؟

عدالت نے منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔



Courtesy By HUM News

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top