پی ٹی آئی کے اندر سے ہی تبدیلی آئے تو اچھا ہے، مولانا فضل الرحمان

پی ٹی آئی کے اندر سے ہی تبدیلی آئے تو اچھا ہے، مولانا فضل الرحمان


پشاور: جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر سے ہی تبدیلی آئے تو اچھا ہے۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں آئے روز انتہائی ناقابل برداشت واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اور امن و امان کے لحاظ سب سے زیادہ بری حالت بلوچستان میں ہے۔ ملک سے دہشتگردی کیسے ختم ہو گی یہ سوچنے والی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی اکثریت جعلی ہے۔ اور اگر پی ٹی آئی اکثریت میں ہے تو اسی میں تبدیلی آئے۔ صوبے میں جس کی حکومت ہے وہی تبدیلی لائے۔ اور اگر پی ٹی آئی کے اندر سے ہی تبدیلی آئے تو اچھا ہے۔ جبکہ ہماری خواہش ہے کہ خیبرپختونخوا میں تبدیلی آئے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 2010 میں خیبرپختونخوا میں ہماری حکومت تھی تو صوبے میں امن تھا۔ اور ہمارے دور میں کہیں پر بھی پولیس چوکی نہیں تھی۔ جبکہ خیبر پختونخوا بدامنی کا شکار ہے اور سندھ میں ڈاکوؤں کا راج ہے۔

انہوں نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے ملاقاتیں ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ جبکہ ن لیگ سے ہماری شکایت پیدا ہوئی تو ہم ساتھ بیٹھ گئے۔ پیپلز پارٹی سے کوئی شکایت پیدا ہوئی تو ہم ساتھ بیٹھ گئے۔ سینیٹ کے الیکشن کے لیے کیا ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: ہمارا ایٹمی پروگرام جارحیت کیلئے نہیں صرف اپنے دفاع کیلئے ہے، وزیر اعظم

جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ ہم امن وامان کے حوالے سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اور امن وامان کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے۔ پی ٹی آئی اور جے یوآئی کے درمیان ایک زمانہ بہت تلخ گزرا ہے۔ تاہم ہم اختلاف تو ختم نہ کرسکے لیکن رویے میں نرمی لاسکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ن لیگ، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور دیگر جماعتوں سے اختلاف ہے لیکن کوئی دشمنی نہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی سے بھی اب وہی صورتحال بن رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے نوجوان آتے ہیں اور میرے ساتھ بیٹھتے ہیں، سوالات کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنا رویہ تبدیل کرے تو بات ہوسکتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فاٹا انضمام پر ہم چیختے رہے کہ آپ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ اور پورے آئین میں 2 آرٹیکل فاٹا سے متعلق تھے جن کو حذف کیا گیا۔ جبکہ فاٹا انضمام کے حوالے سے کوئی بحث نہیں کی گئی۔ ہمیں یقین تھا کہ یہ نظام نہیں چلے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم قبائلی جرگے کی مشاورت سے اگلا اقدام کریں گے۔ سیاستدان جیل جاتے ہیں مگر تحریکیں رہائی کے لیے نہیں ہوتیں۔ بلکہ تحریکیں بڑے مقاصد کے لیے ہوتی ہیں۔ تحریکیں عوام کے لیے سہولیات اور آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اور سیاستدانوں کا وطیرہ ہے کہ جیل سے باہر آکر کمپرومائز کر لیتے ہیں۔ جب سیاستدان کمپرومائز کرتے ہیں تو پھرعوام کمزور ہوجاتے ہیں۔



Courtesy By HUM News

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top