پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے درمیان مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے مجھے بلایا ،میں بحیثیت مہمان یہاں آیا ہوں ،جے یو آئی اور پیپلز پارٹی کا ڈرافٹ پر اتفاق ہوگیا ہے،ہم چاہتے ہیں کہ نوازشریف کا بھی اتفاق رائے حاصل کیاجائے۔
اسلام آباد میں تحریک انصاف سے بھی بات کریں گے ،کوشش ہے کہ اس ترمیمی بل کو متفقہ بل تصور کیا جائے ،اس بل پر بلاول بھٹو زرداری کی بہت محنت ہے،ہم نے حکومت کا پہلا مسودہ مسترد کردیا تھا،ہم آج بھی حکومت کے پہلے مسودے کو مسترد کرتے ہیں۔
ہم نے اپنی تجاویز مرتب کیں جن پر پیپلز پارٹی سے بات چیت ہوئی،پیپلز پارٹی بھی ایک ڈرافٹ بنا چکی تھی، ہم نے بھی اپنا ڈرافٹ بنایا،پیپلز پارٹی نے ہمارے مسودے کے قریب قریب مسودہ تیار کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور جے یوآئی کے مسودےمیں جو فرق تھا اس کو مٹانے میں کامیاب ہوئے،ہم نے اس آئین کو محفوظ رکھنا ہے، جمہوریت اور جمہوری اداروں کو طاقتور بنانا ہے۔
ملک کے سیاسی نظام میں اعتماد پیداکرنا ہے،بہت نقصان ہو چکے ہیں جو ہم کافی عرصے سے برداشت کررہے ہیں،آج ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے تاکہ آئین محفوظ رہے،اپنا گھر جب تباہ ہوتا ہےتو خود ہی اس کو دوبارہ تعمیر کرنا ہوتا ہے۔
ہم پہلے بھی آئین اور ملک کے ساتھ تھے اور آج بھی ہیں ،جو پہلا مسودہ آیا تھا وہ قابل قبول نہیں ،ہم نے جو تجاویز دی ہیں ا س پر اتفاق رائے بنتا ہے تو ہم اس پر خوش ہیں،ہماری تجاویز پر عمل ہوگا تو میں آئینی ترامیم کو تسلیم کرلوں گا۔
کسی کو آئین سے کھلواڑ نہیں کرنے دیں گے ،تحریک انصاف کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے ،اس موقع پر صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا آئینی ترامیم میں آئینی عدالتوں کے قیام پر اتقاق ہو گیا ہے، جس پر انہوں نے کہا آپ لوگ مختلف زاویے سے ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں۔
جو آپ لوگ پوچھنا چاہ رہے ہیں ہم ابھی نہیں بتائیں گے ،ہم نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تھے،مجھے اس بات پر اعتراض ہے آپ لوگ کہتے ہیں بلاول نے مجھے منا لیا،ہم نے ایک بات پر اتفاق کیا ہے ، یہی سیاست کا چلن ہے۔
آئین بھی اسی طرح متفقہ طور پر تیار کیا گیا تھا ،ملک کے کسی بھی مسئلے پر جماعتوں کو مل کر کام کرنا پڑتا ہے ،ملک ، پارلیمنٹ اور آئین کو مضبوط بنانے کے لئے ایسی قانون سازی کرنی چائیے ۔
ہم چاہیں گے حکومت اور اپوزیشن سب مل کر آئینی ترامیم کریں،ملک کے مسئلے پر تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کر سوچنا چاہئے،ہم سب اپنے لیے نہیں ملک کے فائدے کیلئے سوچ رہے ہیں۔
اس موقع پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اتفاق رائے میں مزید اتفاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے،
چاہتےہیں تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی ہمارے ساتھ ہوں،بلاول بھٹو
جب بھی بڑی آئینی ترامیم ہوئیں اس میں جے یو آئی اور پیپلز پارٹی کا کردار رہا ہے ،بلاول بھٹو
کل میاں نواز شریف سے رائیونڈ میں کھانے پر ہماری ملاقات ہوگی ،بلاول بھٹو
کل ہمارے اتفاق رائے میں مسلم لیگ ن بھی شامل ہو جائے گی ،بلاول بھٹو
ہم چاہتے ہیں اپوزیشن جماعتوں سمیت دیگر جماعتیں بھی شامل ہو جائیں ،بلاول بھٹو
اس اتقاق رائے سے ہماری قانون سازی میں مزید مضبوطی آئے گی ،بلاول بھٹو
ہمیں غیر متنازعہ طریقے سے اتفاق رائے کرنا ہے،بلاول بھٹو
میں یہ خوشخبری آپ کو بتانا چاہتا تھا ،بلاول بھٹو زرداری
جو سیاسی ماحول ہے اس میں ڈائیلاگ کی کمی تھی ،بلاول بھٹو زرداری
یہ سیاسی ڈائیلاگ کی ابتداء ہے اور یہ ملک کے مفاد میں ہے ،بلاول بھٹو
میں مولانا فضل الرحمان کو دلی طور پر مبارکباد دیتا ہوں ،بلاول بھٹو زرداری
میری خواہش یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں ،بلاول بھٹو زرداری
ان کے بڑوں نے ہمارے بڑوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے،بلاول بھٹو زرداری
کل ہم نواز شریف سے ملاقات کریں گے پھر ترمیمی بل کے نکات سامنے لائیں گے،بلاول بھٹو
مسلم لیگ ن بھی ان ترامیم پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھی ،بلاول بھٹو
میں نے اپنی والدہ کی خواہش پر اس معاملے میں دلچسپی لی ،بلاول بھٹو زرداری
مجھے ان ترامیم کو منظور کروانے کے لئے کوئی جلدی نہیں تھی ،بلاول بھٹو زرداری
میں تو 2006 سے ان آئینی ترامیم کا انتظار کر رہا ہوں ،بلاول بھٹو زرداری
میں تو سب طبقہ فکر ہے پاس گیا ہوں اور ان ترامیم پر بات کی ہے ،بلاول بھٹو
پی ٹی آئی عام طور پر ہاتھ ملانے اور بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے ،بلاول بھٹو
ایوان کا مشترکہ فورم موجود ہے ان سے وہاں بات کریں گے ،بلاول بھٹو زرداری
فضل الرحمان سے ان کے اچھے تعلقات ہیں تو ان سے مدد کرنے کو کہیں گے ،بلاول بھٹو
پی ٹی آئی کو بھی اپنا مثبت کردارادا کرنا چاہئے، بلاول بھٹو زرداری
جو ان کے ذاتی اور سیاسی ایشوز ہیں وہ اپنی جگہ،ملک کےمسئلے پر ان پٹ ضرور دینا چاہیے،بلاول بھٹو
میں نے وکلاء، سول سوسائٹی اور سیاسی تنظیموں سے رائے لی ہے ،بلاول بھٹو
میں ابھی بھی مزید تجویز لینے کے لیے تیار ہوں ،بلاول بھٹو
میں چاہوں گا بلیک کوٹ کے دباؤ میں آکر جسطرح انیسویں ترمیم منظور کروائی وہ آئندہ نہ ہو
اٹھارویں ترمیم کو جب ہم متعارف کروارہے تھے تو ایک مہم چلی تھی،بلاول بھٹو
اس وقت ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا تھا ،بلاول بھٹو
ہم نے اس پراسیس میں کچھ قربانیاں دیں ،بلاول بھٹو
اس وقت سیاسی ماحول سے سیاسی راستہ نظر آ رہا ہے،بلاول بھٹو