سویلینز ٹرائل

سویلینز ٹرائل


فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی حقوق معطل کرنے کیلئے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ  نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وزارت دفاع سے 9 مئی ملزمان کو ملٹری کورٹ بھیجنے کا ڈسٹرکٹ کورٹ کا آرڈر طلب کر لیا۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیتے وقت آرٹیکل 233 کی غلط تشریح ہوئی، پانچ رکنی لارجر بنچ نے بنیادی حقوق معطل ہونے کا تاثر لیا، بنیادی حقوق ایمرجنسی کی صورت میں معطل ہوئے تھے۔

سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہو سکتا ہے ؟ سپریم کورٹ

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں تو بنیادی حقوق معطل ہونے کا کوئی تعلق نہیں، پرویز مشرف دور میں اپیل کا حق نہ دے کر حقوق معطل ہوئے تھے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 8(3) کے مطابق جہاں ذکر ہے وہ مانتے ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے سوال اٹھایا کہ اس معاملے میں ایمرجنسی والی تو کوئی بات نہیں؟ جسٹس مظہر نے کہا کہ بنیادی حقوق معطل کرنے کیلئے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے، یہ معاملہ مختلف ہے کہ سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 233 کا فوجی عدالتوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا، آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8(5) کی تشریح درست ثابت کرنے کیلئے چھیڑا گیا، آرٹیکل 233 کے تحت صدر ایمرجنسی نافذ کر کے بنیادی حقوق معطل کر سکتا ہے۔

آئین پر عمل ہوتا تو یہ حالات نہ ہوتے، لوگوں کو اداروں پر یقین نہیں، سپریم کورٹ

جسٹس مظہر نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں بھی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق پر عدالتوں سے عملدرآمد نہیں ہو سکتا، اس نکتے پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالت اپنا اختیار استعمال کروا سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس بنیادی حقوق معطل کرنے کااختیار ہے ، ایگزیکٹیو صدر مملکت کے آرڈر پر عملدرآمد کرواتی ہے۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہو سکتا ہے، صرف عملداری معطل ہوتی ہے ، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ موجودہ کیس میں ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل نہیں تھے نہ ایمرجنسی نافذ تھی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عملدرآمد روکنا بنیادی حقوق معطل کرنے کے برابر ہے۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل ، زیر حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنیکی استدعا مسترد

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جی ایچ کیو گیٹ پر حملہ ہوا وہاں شہادتیں ہوئیں، کیا ان دہشتگردوں کا ٹرائل اے ٹی سی میں ہوا؟ ان دہشتگردوں کو ملٹری کورٹ کیوں نہیں بھیجا گیا؟۔

جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ نو مئی واقعات کے ملزمان کتنے ہیں؟ نو مئی واقعات کے 103ملزمان ملٹری کورٹ میں اور باقی ملزمان ڈسٹرکٹ کورٹ میں ہیں، اے ٹی سی کا آرڈر د کھائیں جہاں 103 ملزمان کو ملٹری کورٹ بھیجا گیا۔

 



Courtesy By HUM News

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top