سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ جو اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ہدایات کی گئیں وہ پوری ہوئیں؟
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے تفصیلی دلائل دیے، سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے استفسار کیا’آج آپ دلائل مکمل کریں گے؟ اگر آج مکمل نہ کیے تو یہ نہ ہو کہ گھر میں داخلہ ہی بند ہو جائے۔
اس پر فیصل صدیقی نے برجستہ جواب دیا کہ گھر میں داخلہ تو ویسے بھی بند ہو چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کوشش کروں گا کہ دلائل مکمل کر لوں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کو یہ خیال کہاں سے آیا کہ عدالتی اختیارات کم ہوئے ہیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے کوئی خیال نہیں آیا، آئین میں جو ترمیم ہوئی اس کا کوئی تو مقصد ہوگا۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دورہ امریکا، اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے پرتپاک استقبال
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ 187کو 175 کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا، میری نظر میں عدالتی اختیارات میں تقسیم ہوئی ہے، دلائل دیتے ہوئے ہمیں بھی نظر میں رکھیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کتنے اختیارات کم ہوئے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پرانا 187 اور نئے 187 کو پڑھیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 26ویں ترمیم کو دیکھا جائے تو یہ ترمیم وضاحت کیلئے نہیں کی گئی، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ نہ ترمیم نہ 184/3 آپ کے کیس سے متعلقہ ہے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ سارا کیس ہی اسی سے متعلق ہے، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پرانے والے 187 کے تحت ہی ڈیل کریں گے،ذہن میں رکھیں آج آپ نے دلائل ختم کرنے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بتائیے کیا 185 میں 187 استعمال ہوسکتی ہے؟ آزاد اراکین نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا، جوائننگ کے بعد سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے اپلائی کیا،معاملہ مخصوص نشستوں کیلئے تھا۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل سے 79 ممبران نکل کر پی ٹی آئی میں جانے پر بہت خوش ہیں، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ جو اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ہدایات کی گئیں وہ پوری ہوئیں؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ تمام ممبران نے اپنے کوائف اور پارٹی وابستگی جمع کرائی تھی،سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نا کیا؟ الیکشن کمیشن یہاں آ کر دھڑلے سے کہتا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد بھی نہیں کریں گے اور نظر ثانی بھی کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے 39 ممبران کو نوٹیفائی کیا تھا، فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 39 ممبران کو پی ٹی آئی کا نوٹیفائی کیا لیکن مخصوص نشستیں دیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ نظر ثانی تو بقیہ 40 نشستوں پر ہے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ نظر ثانی تمام 79 نشستوں پر ہے۔
وزیراعظم کی ریکوڈک کو ریلوے لائن نیٹ ورک سے منسلک کرنے کی ہدایت
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میں نے بار بار پوچھا ہے الیکشن کمیشن سے انہوں نے کہا 40 سیٹ پر نظر ثانی ہے، اس موقع پر عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹرم پر بلا لیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ بتائیں آپ نے پی ٹی آئی کے 39 ممبران کو نوٹیفائی کیا؟ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 39 ممبران کو پی ٹی آئی کا نوٹیفائی کر دیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ نے 39 ممبران کے تناسب سے مخصوص نشستیں دی ہیں؟ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم 39 کی حد تک تو مخصوص نشستیں نہیں دے سکتے یہ تو باقاعدہ فارمولا ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیاکہ کون سا فارمولا ہوتا ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اگر فارمولا ہوتا ہے تو باقی جماعتوں کو مخصوص نشستیں کیوں دیں؟ فیصلہ ہو لینے دیتے اور پھر سب کو ایک ساتھ مخصوص نشستیں دیتے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نہیں باقی جماعتوں کو نہیں دی گئیں مخصوص نشستیں۔
ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ باقی تمام سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دے دی ہیں، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ تو پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کا کوئی تو تقدس ہونا چاہئے، کیس کیا ہے یہ مسئلہ نہیں ہار جائیں گے، بات سپریم کورٹ کے وقار اور مستقبل کی ہے۔
بعد ازاں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے،عدالت نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔