چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ جسٹس(ر) دراب پٹیل کے تجربے نے ثابت کیا وفاقی آئینی عدالت ضرورت تھی۔
آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ ان کیلئے ناگوار ہے جو سمجھتے ہیں پاکستانی سیاست کا آغاز کرکٹ ورلڈ کپ سے ہوتا ہے،آئینی ارتقاء، منشور اور میثاق جمہوریت کیلئے ہمارا عزم ہمیشہ یکساں رہا ،چاہے چہرے بدلتے رہے۔
نئےچیف جسٹس کی تعیناتی کااعلان موجودہ چیف جسٹس کی رخصتی کیساتھ ہی ہوجائیگا، عرفان صدیقی
ہم کبھی کسی کے کہنے پرقانون سازی یا آئین میں ترمیم نہیں کرتے، ہم اپنی نسلوں کے لیے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ہمیں 18ویں ترمیم میں 1973 کے آئین کو بحال کرنے کے لیے 30 سال لگے۔
افتخار چودھری کی سیاست کے عدالتی فیصلوں کے نقصانات کو دور کرنے کیلیے 2دہائیاں لگ چکیں،26ویں ترمیم عجلت میں نہیں کی جا رہی،26ویں ترمیم کافی عرصہ پہلے ہی ہونی چاہیے تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس(ر) دراب پٹیل ان 4 ججز میں شامل تھے جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بری کیا، انہوں نے بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا حصہ بننے سے انکار کیا۔
پھاٹا اجلاس میں اپنی چھت اپنا گھر پروگرام کی منظوری
جسٹس(ر) دراب پٹیل کا مؤقف تھا قائد عوام کو سزا دینے کیلئے کوئی ثبوت نہیں تھا،جسٹس(ر) دراب پٹیل بھٹو شہید کیس میں گواہ کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے تھے،د راب پٹیل نے کہا تھا بھٹو شہید کا ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلانا ایک غلطی تھی،جسے تسلیم کرنے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو 45 سال لگے۔
دراب پٹیل نے 1981 میں ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا ،جسٹس(ر) دراب پٹیل اگر ایسا نہ کرتے تو وہ پاکستان کے چیف جسٹس بن جاتے۔
جسٹس(ر) دراب پٹیل کے تجربے نے ثابت کیا وفاقی آئینی عدالت ضرورت تھی،جسٹس(ر) پٹیل نے آئینی عدالت کا خیال اپنے ساتھیوں سے شیئر کیا جو ان سے متفق تھے۔