پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے سے جہاں عام شہریوں کو سوشل میڈیا ایپس استعمال کرنے میں دشواری کا سامنا ہے وہاں فری لانسر بھی سخت پریشانی کا شکار ہیں۔
پاکستان بھر میں گزشتہ ماہ سے انٹرنیٹ صارفین اس بات کی شکایت شدت سے کررہے ہیں کہ کبھی کسی کا فیس بک اور واٹس ایپ نہیں چل رہا یا نیٹ کی رفتار سست ہوگئی ہے،انٹرنیٹ کی موجودہ صورتحال سے فری لانسنگ کی دنیا میں آنے والی نئی نسل نااُمید ہوگئی ہے۔
وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ کے وی پی این بارے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے، صارفین نے وزیر مملکت آئی ٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جہاں تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں مزاحیہ انداز میں تبصرے بھی کئے جا رہے ہیں، ان کا موازنہ بھارت کے آئی ٹی منسٹر سے بھی کیا جانے لگا، اگرچہ انٹرنیٹ سروسز میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن پھر بھی انٹرنیٹ کی سست رفتاری پر ردعمل آ رہا ہے۔
سلو انٹرنیٹ اور فائر وال کی تنصیب کیخلاف درخواست کل سماعت کیلئے مقرر
دوسری جانب پچھلے کئی ہفتوں سے میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی کا تعلق درحقیقت سیاسی مخالفت کو دبانے اور سوشل میڈیا کو لگام دینے کے لیے ہے، جسے انٹرنیٹ فائر وال کی مبینہ ٹیسٹنگ سے منسوب کیا گیا ہے۔
اس بارے میں پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن نے گزشتہ روز ایک ایک پریس ریلیز میں کہا کہ فائر وال سے ہونے والی انٹرنیٹ کی سستی سے پاکستانی معیشت کو 30 کروڑ ڈالر تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔ ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین علی احسان نے کہا کہ فائر وال پہلے ہی سے انٹرنیٹ میں لمبے عرصے تک جاری رہنے والی بندشوں کا باعث بن چکی ہے اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کی غیر یقینی کارکردگی کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہونے کا خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ وزیرمملکت برائے آئی ٹیشزا فاطمہ نے انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا ملبہ وی پی این پر گرایا ہے جسے آئی ٹی ایکسپرٹس نے مسترد کردیا ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے آئی ٹی ایکسپرٹ ملک مدثر کا کہنا تھا کہ وی پی این پہلے بھی استعمال ہوتا تھا، ایک ڈیڑھ ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ انٹرنیٹ سلو ہو گیا اور وجہ یہی ہے کہ ایسی فائروال لگائی جارہی ہے جس سے سوشل ٹریفک کا مانیٹر کیاجا سکے۔
ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار میں 30 سے 40 فیصد کمی آ گئی
ان کا کہنا تھا کہ وی پی این دس سے پندرہ فیصد صرف استعمال کرنے والے کے نیٹ ورک کو سست کرتاہے، اس سے ملک گیر مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا حکومت کو چاہیے کہ ٹارگٹڈ فائر وال لگائے تاکہ آن لائن بزنس متاثر نہ ہوں۔
وفاقی وزیرِمملکت آئی ٹی شزا فاطمہ نے نیوز کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ملک میں انٹرنیٹ بند کیا گیا نہ ہی اس کی رفتار سست کی گئی، ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اس کی رفتار متاثر ہوئی ہے۔
وزیر مملکت آئی ٹی نے کہا کہ ملک میں کچھ ایپس کی چند سروسز کام نہ کرنے لگیں تو وی پی این کا استعمال کیا جانے لگا، وی پی این کے زیادہ استعمال کی وجہ سے انٹرنیٹ کی رفتار پر اثر پڑا۔ان کا کہنا تھا کہ وی پی این استعمال سے مقامی انٹرنیٹ سروس بائی پاس ہوجاتی ہے جبکہ وی پی این استعمال کرتے ہیں تو موبائل کی رفتار بھی سست ہوجاتی ہے، انٹرنیٹ پر جو دباؤ پڑا وہ ایک قدرتی تھا جس کی وجہ سے انٹرنیٹ سروس سست ہوئی ہے۔
شزا فاطمہ کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سروس کے مسئلے پر موبائل کمپنیوں، تکنیکی ماہرین سے رابطے میں ہیں، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئندہ انٹرنیٹ سروس سے متعلق صارفین کو مشکلات نہ ہوں۔
وزیر مملکت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ کا تعلق پاکستان مسلم لیگ سے ہے، شزا فاطمہ ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف کی بھانجی ہیں، جو جون 2013 سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوتی آرہی ہیں، اس سے قبل انہوں نے وزیر مملکت کے عہدے کے ساتھ نوجوانوں کے امور پر وزیر اعظم کی معاون خصوصی کے طور پر خدمات انجام دیں۔
عام انتخابات 2013 ء میں پنجاب سے خواتین کے لیے مخصوص نشست پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کے طور پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئی تھیں،اکتوبر 2017 میں وہ وزارت تجارت، کامرس اور ٹیکسٹائل کے لیے پارلیمانی سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہیں اور ساتھ ہی قومی اسمبلی کے ینگ پارلیمنٹرینز فورم کی نائب صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
شزا فاطمہ عام انتخابات 2018 میں خواتین کے لیے مخصوص نشست پر مسلم لیگ ن کی امیدوار کے طور پر دوبارہ قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئیں، 14 مئی 2022 کوانہوں نے باضابطہ طور پر وزیر مملکت کے عہدے کے ساتھ وزیر اعظم شہباز شریف کی وفاقی کابینہ میں نوجوانوں کے امور کے بارے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی کا کردار سنبھالا۔
انٹرنیٹ بند کیا نہ سلو، دباؤ وی پی این کی وجہ سے آیا، وزیر مملکت آئی ٹی
عام انتخابات 2024 میں شزا فاطمہ خواجہ خواتین کی مخصوص نشست پر ن لیگ کی امیدوار کے طور پر تیسری بارقومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئیں، شزا فاطمہ نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کی تعلیم مکمل کر رکھی ہے، انھوں نے یہ ڈگری یونیورسٹی آف وارک سے حاصل کی۔ وہ 2006ء سے 2010ء تک لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں پڑھاتی رہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت ہونے والے سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے حکام پیش ہوئے، کمیٹی ارکان نے آئی ٹی انفراسٹرکچر پر منحصر کاروبار(ڈیجیٹل معیشت) خاص طور پر ’ای کامرس‘ کرنے والے اداروں کے جاری نقصانات کا حوالہ دیتے ہوئے انٹرنیٹ بندش کی مذمت کی۔
اس موقع پر حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ انٹرنیٹ کی سست روی کے باعث یومیہ کم از کم 50 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ بہت سے ’ای کامرس‘ کرنے والے عالمی کاروباری اداروں نے پاکستان سے کاروباری روابط بھی ختم کر دیے ہیں۔
سینیٹر افنان نے وٹس ایپ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کرنے سے متعلق عوام کی شکایات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس سے کاروباری طبقات کے علاوہ عام صارفین بھی یکساں متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستان بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی میں رکاوٹ کی مذمت کرنے والے وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے بھی اسے غیرضروری سکیورٹی اور لامحدود نگرانی میں اضافہ قرار دیتے ہوئے اس کے سنگین معاشی نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔