اکثر ہم سب یہی کہتے ہیں کہ “پتا ہی نہیں چلتا، دن کیسے گزر جاتے ہیں!” لیکن کیا واقعی وقت تیز ہو گیا ہے یا یہ صرف ہم اخذ کرتے ہیں؟ سائنسدانوں نے اس دلچسپ سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک منفرد تجربہ کیا، جس میں مشہور ٹی وی سیریز ”الفریڈ ہچکاک پریزنٹس“ کی ایک پرانی قسط استعمال کی گئی۔
تجربے میں دنیا کے مختلف حصوں سے 577 افراد (عمر 18 سے 88 سال) کے دماغوں کا فنکشنل ایم آر آئی کے ذریعے جائزہ لیا گیا۔
شرکاء کو ”سٹاپ! یو آر ڈیڈ“ نامی آٹھ منٹ کی قسط دکھائی گئی اور اس دوران ان کے دماغی ردعمل کا باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا۔
حیران کن نتائج
تحقیق سے معلوم ہوا کہ عمر رسیدہ افراد کے دماغ نئی معلومات کو کم رفتار سے پروسیس کرتے ہیں، یعنی وہ ایک ہی وقت میں کم واقعات کو یاد رکھتے ہیں۔
جبکہ نوجوان دماغ زیادہ سرگرم رہتے ہیں اور زیادہ تفصیلات ریکارڈ کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، جب دماغ کم چیزیں نوٹ کرتا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ اسی لیے عمر بڑھنے کے ساتھ ہمیں دن چھوٹے اور سال مختصر لگنے لگتے ہیں۔
یہ نتیجہ مشہور فلسفی ارسطو کی اس پرانی بات کی تائید کرتا ہے کہ ”جتنا زیادہ انسان نئے تجربات کرتا ہے، اتنا ہی وقت لمبا محسوس ہوتا ہے۔“
وقت کو سست کیسے کیا جائے؟
سائنسدانوں کے مطابق وقت کو روکنا ممکن نہیں، لیکن ہم وقت کے احساس کو سست ضرور کر سکتے ہیں۔
نئی چیزیں سیکھنا، سفر کرنا، یا روزمرہ کی روٹین میں تبدیلی لانا یہ سب دماغ میں نئے واقعات پیدا کرتے ہیں، جس سے ہمیں لگتا ہے کہ وقت آہستہ گزر رہا ہے۔
دوسرے لفظوں میں، وقت تیز نہیں ہوتا، ہمارا دماغ سست ہوجاتا ہے۔
