دنیا بھر میں ذیابیطس ٹائپ 2 کا مرض وبا کی طرح پھیل رہا ہے اور اب اس کی اہم وجہ دریافت ہوئی ہے۔
ہماری جسمانی گھڑی کے افعال متاثر ہونے اور ناقص غذاؤں کا استعمال ذیابیطس ٹائپ 2 جیسے مرض کا شکار بنا دیتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ شفٹ ورک، نیند کی کمی اور دیگر وجوہات کے باعث جسم کی اندرونی گھڑی کے افعال متاثر ہوتے ہیں جس سے مسلز اور میٹابولزم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ اس کے ساتھ ساتھ ناقص غذاؤں کا استعمال سے گلوکوز کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھتا ہے۔
جسم کی اندرونی گھڑی ایسے پروٹینز پر مشتمل ہوتی ہے جو مسلز کے ٹشوز سمیت پورے جسم میں پھیلے ہوتے ہیں۔
یہ گھڑی جسمانی اور رویوں کی تبدیلی سے منسلک ہوتی ہے اور 24 گھنٹوں کے معمولات کا تعین کرتی ہے۔
جسمانی گھڑی کے افعال متاثر ہونے سے میٹابولک امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اس تحقیق میں دیکھا گیا تھا کہ جسمانی گھڑی کس طرح مسلز کے میٹابولزم پر اثرات مرتب کرتی ہے یعنی وہ عمل جس کے ذریعے مسلز غذائی اجزا جیسے گلوکوز کو توانائی میں تبدیل کرتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ جسمانی گھڑی کے افعال متاثر ہونے سے گلوکوز کی سطح میں کس طرح اضافہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے دوران ایسے چوہوں پر تجربات کیے گئے جن میں بی ایم اے ایل 1 نامی جین موجود نہیں تھا جبکہ ان کو زیادہ چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل غذاؤں کا استعمال کرایا گیا۔
ماضی میں ہونے والے تحقیقی کام میں دریافت کیا گیا تھا کہ یہ جین جسمانی گھڑی کے ساتھ ساتھ مسلز کے افعال اور میٹابولزم کو ریگولیٹ کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گھیے کا چھلکا وزن کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس والی غذاؤں کے استعمال سے چوہوں کے جسم میں گلوکوز کے حوالے سے عدم برداشت بڑھ گئی۔
محققین کے مطابق جسمانی گھڑی کے افعال متاثر ہونے سے مسلز پر بدترین اثرات مرتب ہوئے اور چوہے ذیابیطس کے شکار ہوگئے۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ غذاؤں سے بڑھنے والے جسمانی وزن سے جسمانی گھڑی کے افعال بدل گئے اور اس سے بھی ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اب ماہرین کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ اگر غذاؤں کے باعث جسمانی گھڑی میں تبدیلی اتی ہے تو کیا اسے ریورس کرنا ممکن ہے یا نہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔