جوتوں سے آنے والی بدبو سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟

جوتوں سے آنے والی بدبو سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟


تقریباً ہر گھر میں وہ جوتے ضرور موجود ہوتے ہیں جن کی بدبو برداشت کرنا مشکل ہو، لیکن دہلی کے دو محققین نے اس عام مسئلے کو ایک دلچسپ سائنسی تحقیق کا موضوع بنا کر نوبل انعام جیت لیا۔ 42 سالہ وکاش کمار، جو دہلی کے مضافات میں واقع شیو نادر یونیورسٹی میں ڈیزائن کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

اور ان کے سابق طالبعلم 29 سالہ سارتھک متل نے محسوس کیا کہ ہوسٹل میں طلبا کے جوتے اکثر کمروں کے باہر رکھے جاتے ہیں۔

ابتدا میں لگتا تھا کہ یہ جگہ کی کمی کی وجہ سے ہے، لیکن تحقیق سے پتہ چلا کہ اصل مسئلہ جوتوں کے مسلسل استعمال اور پسینے کے باعث پیدا ہونے والی بدبو تھی۔

ان دونوں محققین نے 149 طلبا پر سروے کیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر لوگ اپنے یا دوسروں کے جوتوں کی بدبو سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

تقریباً تمام گھروں میں جوتے ریک میں رکھے جاتے تھے اور بہت کم لوگوں کو بدبو دور کرنے والی مصنوعات کے بارے میں علم تھا۔

دیسی ٹوٹکے جیسے بیکنگ سوڈا، ڈیوڈرنٹ اسپرے یا چائے کی پتی رکھ دینا مؤثر ثابت نہیں ہوا تھا۔

وکاش اور سارتھک نے سائنس کا سہارا لیا اور پایا کہ جوتوں میں پسینے کی وجہ سے پیدا ہونے والا بیکٹیریا “کائٹوکوکس سیڈینٹیریئس” بدبو کی اصل وجہ ہے۔

تجربات سے معلوم ہوا کہ صرف چند منٹ کی یو وی سی روشنی اس بیکٹیریا کو ختم کر سکتی ہے اور جوتوں کی بدبو دور ہو جاتی ہے۔

انڈین محققین نے ایک ایسا جوتوں کا ریک تیار کیا جس میں یو وی سی لائٹس نصب تھیں، جو نہ صرف جوتے رکھنے کے لیے محفوظ جگہ فراہم کرتی ہیں بلکہ بدبو اور جراثیم سے بھی پاک کرتی ہیں۔

تجربے میں یونیورسٹی کے کھلاڑیوں کے استعمال شدہ جوتے استعمال کیے گئے اور روشنی کی مدت کو ایڈجسٹ کر کے بہترین نتیجہ حاصل کیا گیا۔

ابتدائی دو منٹ میں بدبو کافی حد تک ختم ہو گئی اور چار منٹ بعد جوتے مکمل طور پر صاف ہو گئے۔

صرف معمولی جلے ہوئے ربڑ جیسی مہک بچی تھی، لیکن جب دورانیہ دس سے پندرہ منٹ تک بڑھایا گیا، تو جوتے گرم ہو گئے اور ان سے جلے ہوئے ربڑ جیسی تیز بو آنے لگی۔

جس سے ثابت ہوا کہ سائنس میں وقت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

ان کی یہ تحقیق اِگ نوبل انعام کے لیے منتخب ہوئی، جو ہرسال ’اینلز آف امپروبیبل ریسرچ‘ نامی جریدے کی جانب سے دیا جاتا ہے، اور ہارورڈ-ریڈکلف گروپس کے تعاون سے ہر سال دس غیر روایتی تحقیقات کو نوازا جاتا ہے۔

انعام کا مقصد لوگوں کو پہلے ہنسانا، پھر سوچنے پر مجبور کرنا اور نئی ایجادات کو سراہنا اور حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

وکاش کمار نے کہا کہ۔ ’یہ ہمارے لیے ایک اعزاز کے ساتھ ذمہ داری بھی ہے۔ اب ہمیں ایسے موضوعات پر تحقیق کرنی ہوگی جن پر لوگ عموماً توجہ نہیں دیتے۔‘

یہ تحقیق واضح کرتی ہے کہ ایک چھوٹا سا گھریلو مسئلہ بھی سائنس کی دنیا میں دلچسپ اور منفرد ایجادات کی بنیاد بن سکتا ہے۔ آج کے بدبودار جوتے، کل کی سائنسی دریافت کا سبب بن سکتے ہیں۔




Courtesy By Such News

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top