عرصے سے عوامی روایات اور ثقافت میں یہ خیال رائج ہے کہ سونے سے پہلے پنیر کھانے سے ڈراؤنے یا عجیب و غریب خواب آتے ہیں۔
کارٹونز، کہانیوں اور انٹرنیٹ پر موجود قصوں میں پنیر کو رات کے خوفناک خوابوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔
اب ایک نئی سائنسی تحقیق نے اس دیرینہ تصور کو ایک بار پھر موضوعِ بحث بنا دیا ہے اور اس بار کچھ سائنسی شواہد بھی اس خیال کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔
یونیورسٹی آف مونٹریال کے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ٹورے نیلسن کی زیرِ قیادت کی گئی اس تحقیق میں ایک ہزار سے زائد کینیڈین طلبہ سے ان کے غذائی معمولات، نیند کے معیار اور خوابوں کے بارے میں تفصیلی سوالات کیے گئے۔
نتائج کے مطابق تقریباً 16 فیصد شرکاء نے بتایا کہ دودھ یا پنیر جیسی ڈیری مصنوعات ان کی نیند پر منفی اثر ڈالتی ہیں، جب کہ 20 فیصد سے زائد افراد نے کہا کہ ڈیری مصنوعات ان کے خوابوں کو زیادہ عجیب، غیر معمولی یا پریشان کن بنا دیتی ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ وہ افراد جنہیں لیکٹوز سے الرجی ہے، ان میں خوفناک خواب دیکھنے کا رجحان نمایاں طور پر زیادہ پایا گیا۔
اصل وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ خود پنیر یا دودھ براہ راست خوابوں کا باعث نہیں بنتے، بلکہ وہ جسمانی تکالیف جیسے معدے کی گڑبڑ یا پیٹ درد کو جنم دیتے ہیں جو نیند میں خلل ڈال کر منفی یا خوفناک خوابوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
ایک خاص تجزیاتی طریقہ، جسے’mediation analysis’ کہا جاتا ہے، کی مدد سے یہ واضح ہوا کہ لیکٹوز عدم برداشت رکھنے والے افراد میں رات کو معدے کی تکلیف بڑھ جاتی ہے، جو نیند اور خوابوں دونوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
کیا تمام لوگوں کو پنیر سے خوفناک خواب آتے ہیں؟
نہیں، تحقیق کے مطابق یہ اثر صرف مخصوص افراد، جیسے کہ لیکٹوز سے الرجی رکھنے والوں یا معدے کی حساسیت رکھنے والوں میں نمایاں پایا گیا۔ عام لوگوں کے لیے پنیر کا سونے سے پہلے استعمال ضروری نہیں کہ برے خوابوں کا باعث بنے۔
ڈاکٹر نیلسن کا کہنا ہے، ہمیں مختلف عمر، مزاج، اور خوراک رکھنے والے لوگوں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ یہ اثرات واقعی سب پر لاگو ہوتے ہیں یا نہیں۔’
لہٰذا حتمی طور پر یہ کہنا غلط ہو گا کہ پنیر خوابوں کو خوفناک بنا دیتا ہے، لیکن تحقیق نے اس امکان کی طرف ضرور اشارہ کیا ہے کہ کچھ افراد پر اس کا اثر ہو سکتا ہے، خصوصاً وہ جو ڈیری سے حساسیت رکھتے ہوں۔
خوابوں اور خوراک کے درمیان تعلق ایک دلچسپ اور پیچیدہ موضوع ہے، جس پر مزید سائنسی مطالعے کی ضرورت ہے۔