احد رضا میر کی میم سے محبت کے ذریعے اسکرین پر واپسی ہوئی ہے ، کہانی معاشرے کے بڑے المیے پر مبنی ہے۔
اس وقت ہماری اسکرینوں پر بھاری بھرکم پراجیکٹس کا قبضہ ہے۔ پرتشدد صورتحال‘ الجھی ہوئی کہانیاں‘ بے ترتیب کردار اور ذہنوں کو پراگندہ کردینے والے واقعات ‘ یعنی ادھر آپ اسکرین کے آگے بیٹھے نہیں اور ادھر آپ کو سردرد کی گولی کی ضرورت محسوس ہوئی نہیں۔
اس دوڑتی بھاگتی ہوئی‘ مصروف اور مسائل سے دوچار زندگی میں جب ذہن کو سکون بخشنے والا ‘ لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنے والا اور دماغ کو درست سمت پر گامزن کرنے والا کوئی شاہکار دیکھنے کو مل جائے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے ۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی حقیقت سے قریب‘ ہلکے پھلکے موضوع پر بنایا گیا منصوبہ سامنے آتا ہے تو لوگ اسے پسند کرتے ہیں جیسا کہ اس سال عشق مرشد کو لوگوں کو کچھ اس حد تک پسند کیا کہ یوٹیوب پر عشق مرشد کی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم ہوگئے ۔
اسی طرح سے حال میں ختم ہونے والے ڈرامے کبھی میں کبھی تم کی کہانی بھی عام زندگی سے تعلق رکھتی تھی اسی لئے لوگوں نے اسے بے حد سراہا اور بین الاقوامی سطح پر ان دونوں ڈراموں چرچے ہوئے ۔
ڈرامہ بنانے کیلئے گھر اور زیور گروی رکھے، کاشف محمود
بن روئے‘ ہم سفر‘پرواز ہے جنون ‘میرے ہم دم میرے دوست‘دیار دل ‘ متاع جاں تو ہے ‘یقین کا سفر ‘اڈاری‘ یہ دل میرا‘ سمیت بے شمار کامیاب ڈراموں کی خالق فرحت اشتیاق جن کا تازہ ترین شاہکار کبھی میں کبھی تم ابھی دھوم مچاکر ختم ہوا ہے ‘کے قلم سے لکھے ہوئے ایک دلچسپ کارنامے کو مومنہ درید پروڈکشن نے ڈائریکٹر علی حسن کے ذریعے اسکرین پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ میم سے محبت وہ ڈرامہ ہے جس کے پیش کئے جانے سے قبل اس کی بہت زیادہ تشہیر ہوتی نہیں دیکھی گئی‘ ڈرامے کی ریلیز سے ایک ہفتے قبل ہی اس ڈرامے کو بتدریج عوام کے سامنے پیش کیا گیا‘ اس ڈرامے میں احد رضا میر اور دنانیر کے علاوہ آصف رضا میر‘ ضرار خان ‘خدیجہ سلیم ‘فائزہ گیلانی‘ تحسین وجاہت ‘ رابعہ رضوان ‘ زینب مظہر ‘ محمد حنبل ‘ نوین نقوی ‘ ارشد محمود ‘ عرفان اللہ ‘ ابو ہریرہ ‘ رانا ظفر اور توثیق حیدر بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
احد رضا میر یعنی طلحہ احمد ایک ایسے سنجیدہ طبع شخص کے روپ میں سامنے آئے ہیں جو ایک چھوٹے بچے پر جان چھڑکتا ہے‘ یہ بچہ کون ہے ؟ پوری طرح بولنے سے قاصر یہ بچہ اسے ”پا“کہتا ہے۔ آصف رضا میر اس ڈرامے میں اپنے حقیقی بیٹے یعنی ا حد رضامیر کے باپ کا کردار ادا کررہے ہیں جو اپنے بیٹے کی پریشانی میں پریشان ہیں ۔
یہاں اگراسٹار کاسٹ ابوہریرہ کی فنکارانہ صلاحیتوں کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یقینا یہ زیادتی ہوگی کیونکہ یہ بچہ پوری طرح سے بول نہیں سکتا اس لئے وہ اپنے تاثرات سے اپنی بات سمجھانے پر مجبور ہے ۔ ایک ہی قسط میں اس بچے نے اپنے چہرے کے ایسے تاثرات پیش کئے ہیں کہ لوگ بے ساختہ اس سراہے پر مجبور ہوگئے ۔
دوسری جانب دنانیر یعنی روشی ہے۔ ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے گھرانے سے تعلق رکھنے والی روشی کو پڑھائی سے سخت چڑ ہے‘ وہ اپنے والدین کی خواہش پر انجینئرنگ کی ڈگری حاصل نہیں کرنا چاہتی‘ کھلی فضاﺅں میں سانس لینے کی اس خواہش میں اس لڑکی کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘ اس سفر میں وہ کن حماقتوں کا بازار گرم کرتی ہے یہ تو آپ کو ڈرامہ دیکھ کر ہی پتا چلے گا لیکن ڈرامے کی پہلی قسط دیکھنے والوں کی اکثریت دنانیر کے کردار کو پسند کررہی ہے جب کہ کچھ لوگوں کایہ بھی خیال ہے کہ دنانیر کا یہ روپ وہ پہلے بھی کئی ڈراموں میں دیکھ چکے ہیں‘ انہیں کچھ مختلف کردار میں دیکھتے تو زیادہ اچھا لگتا ۔
ڈرامے میں خدیجہ سلیم دنانیر کی بہن کا کردار ادا کررہی ہیں ‘ ماں کی پسندیدہ بیٹی کا ٹائٹل حاصل کرنے والی خدیجہ یعنی ماہی ایک سلجھی ہوئی‘ تمیز دار اور قابل لڑکی کے روپ میں سامنے آئی ہے۔اس ڈرامے کے ذریعے بہت عرصے کے بعد نوین نقوی روشی ککی ماں جبکہ نعیمہ گرج ملازمہ کی شکل میں سامنے آئی ہیں ۔توثیق حیدر روشی کے باپ کا‘ جب کہ ضرار خان یعنی عمر روشی کے کزن کا کردار ادا کررہے ہیں۔
میم سے محبت میں دادا یعنی ارشد محمود اور دادی کی اچھی کیمسٹری دکھائی ہے اور بہت عرصے کے بعد اچھی اردو شاعری کی جھلک مزدہ دے گئی اور صرف ایک دادا اور دادی کی نہیں بلکہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ڈرامے کے ہر کردار کیلئے لکھی گئی لائنز میں لفاظی اور شستہ اردو کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو یقینا اس کثیف فضا میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے ۔
کینسر کا شکار حنا خان صحت یابی کیلئے پر امید
اس ڈرامے کی کہانی معاشرے کے اس المئے کو اجاگر کرتی ہے جس میں والدین اپنے بچوں کو اپنے پسندیدہ مضامین پڑھنے اور اپنی پسند کے شعبے میں جانے پر مجبور کرتے ہیں ان کی یہ کوشش بہت سے ذہین بچوں کے زیاں کا باعث بن جاتی ہے۔روشی بھی ایسی ہی ایک لڑکی ہے جسے خاندان کی روایت پر عمل کرتے ہوئے انجینئرنہیں بننا ‘ وہ والدہ کے دباﺅ میں آنے کے باوجود فرار کے راستے تلاش کرتی ہے‘ ایسے میں جب اس کی پھوپھی سلیقہ یعنی فائزہ گیلانی اسے اپنی زندگی کی کہانی سناتے ہوئے کہتی ہے کہ اس مشکل سے نکلنے کا واحد حل شادی ہے تو وہ اپنی سادگی اور مسئلے سے فرار کی خاطر یہ قدم بھی اٹھانے کیلئے تیار ہوجاتی ہے۔
روشی اورطلحہ کا آپس میں کیا تعلق ہوگا کیونکہ طلحہ جلد ہی سبیکہ سے شادی کرنے والا ہے ایسے میں روشی کا اس کی زندگی میں کیا کردار ہوسکتا ہے ؟
روشی کی والدہ اسے ہر قیمت میں اسے کوئی نہ کوئی ڈگری دلانا چاہتی ہیں لیکن اگر روشی نہ چاہے تو کیا اس کی والددہ اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرسکیں گی ؟
طلحہ ( احد رضا میر ) کی زندگی کا وہ کون سا راز ہے جس کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے نمی نہیں جاتی ؟
ان سب سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے تو میم سے محبت کی اگلی اقساط کا انتظار کرنا پڑے گا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انتظار ضائع نہیں جائے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میم سے محبت عوام کیلئے نئے سال کا سب سے اچھا تحفہ ثابت ہوگا۔