” نادان“ میدان میں اترچکے ہیں

” نادان“ میدان میں اترچکے ہیں


تحریر (شازیہ انور)من جوگی کی آخری قسط دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ تو تھا اس ڈرامے کے اسکرپٹ میں کہ سلطانہ صدیقی نے اس ڈرامے کی پروڈکشن کا فیصلہ کیا۔

لو گ جس طرح سے ایک اہم معاشرتی اور مذہبی مسئلے کو کھیل سمجھتے ہوئے اسے اپنی مرضی کا رخ دے دیتے ہیں اور ہمارے اردگرد رہنے بسنے والے لوگ معاملے کی سنجیدگی کو سمجھے بغیر محض لوگوں کے اکسانے پر اکٹھا ہوکر اپنے طور پر گناہ اور بے گناہی کا فیصلہ کرنے لگتے ہیں۔ من جوگی کی آخری قسط میں عالیہ نے جو مسائل جھیلے‘ جس طرح سے لوگوں کے ایک بے عقل اور نادان ہجوم نے اس کی سرعام بے عزتی کی اور مولوی صاحب نے جو خطاب کیا وہ اتنا اثر انگیز تھا کہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرگیا۔ہم سلطانہ صدیقی سمیت اس پراجیکٹ سے وابستہ ہر شخص کو ایک بہترین ڈرامہ پیش کرنے پر دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

من جوگی کے بعد وہ ڈرامہ جس کا ہم سب بے صبری سے انتظار کررہے تھے‘ پردہ اسکرین پر جلوہ گر ہوچکا ہے ‘ یعنی نادان کی پہلی قسط ہم دیکھ چکے ہیں اور دوسری قسط آج شب آٹھ بجے پیش کی جائے گی۔

جس ڈرامے سے سلطانہ صدیقی کا نام جڑا ہو اس کے معیاری ہونے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی‘ اس پر اگر ڈائریکٹر ہوں مہرین جبار جیسی تو یقینا کوئی خاصے کی چیز سامنے آنے والی ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ نادان کا ہے جس کے بارے میں گزشتہ ہفتے ہم نے کافی بات چیت کی اور کچھ ڈرامے کی پہلی قسط آنے کے بعد پر اٹھا رکھیں۔

جیسا کہ پہلی قسط دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ڈرامہ ایک سنجیدہ نوعیت کا ڈرامہ ہے جس میں برائی کے بڑے اور لمبے ہاتھوں کو ایک گاﺅں میں ہر طرف کارفرما دکھایا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں صحت اور تعلیم کی سہولیات ناکافی ہیں ‘ اس جانب توجہ نہ ہونے کی وجہ سے پسماندہ علاقوں میں جہالت اپنی انتہاﺅں پر ہے‘ تعلیم کی عدم دستیابی نے لوگوں کے بدعتوں کی جانب مائل کردیا ہے‘ لوگ پیری فقیری کے چکر میں جان ‘ مال اور عزت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور المیہ تو یہ ہے کہ اپنے سامنے واقعات رونما ہوتے دیکھنے کے باوجود نادانیاں کی جاتی ہیں۔

نادان ایک ڈاکٹر کی کہانی ہے جسے ایک پسماندہ علاقے میں تعینا ت کردیا جاتا ہے لیکن اس علاقے کے کرتا دھرتاﺅں سے یہ برداشت نہیں ہوتا ہے اور وہ کسی بھی الزام کے تحت اس ڈاکٹر کو وہاں سے چلتا کرنا چاہتے ہیں ۔ڈاکٹر یہ بات جان جاتی ہے کہ لوگوں کو تعویذ کے نام پر نشے کا عادی بنایا جارہا ہے اور ا س کا یہ جان لینا ہی اس کیلئے خطرے کا باعث بن جاتا ہے۔ کہانی میں بہت سے اتارچڑھاﺅ ہیں‘ بہت سے پیچ و خم ہیں اور بہت سے ایسے حقائق ہیں جن سے جانب سے آنکھیں کھول لینے میں ہی عافیت ہے ۔

مایہ ناز پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کی منی سیریز کا یہ دوسرا حصہ ہے ‘ اس حصے میں بھی من جوگی کی طرح اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ہمارے ہاں لوگ حقائق جانے بغیر مطلب پرستوں کے آلہ کار بن کر معصوم اوربے گناہ لوگوں پر ظلم ڈھاجاتے ہیں‘ چند لوگ بے قابو مجمع کو جنم دیتے ہیں اور پھر ایسا طوفان برپا ہوتا ہے جو کسی نہ کسی بڑے حادثے کا سبب بن جاتا ہے۔

ڈرامے کی آج کی قسط میں مزید انکشافات ہوں گے‘ رمشا خان ڈاکٹر کے کردار کو بخوبی ادا کررہی ہیں جبکہ احمد علی اکبر المعروف پری زاد پولیس انسپکٹر کے روپ میں سامنے آئے ہیں لیکن سچ کہیں تو وہ اپنے پری زاد کے کردار سے باہر نہیں آسکے۔ ڈرامے میں حماد شعیب بھی ایک انتہائی مختلف انداز میں سامنے آ رہے ہیں۔

اس ڈرامے کی کہانی ساجی گل کی تحریر کردہ ہے جب کہ پیش کش مومل پروڈکشن کی ہے۔ یاد رہے کہ مومل شنید کی پیش کش ”فریب“ حالیہ ایوارڈز کی تقریب میں فاتح قرار پائی ہے۔ ڈرامے کے پلاٹ ‘ کرداروں کی شمولیت‘ مصنفہ کے قلم کی طاقت اور مومل پروڈکشنز کی مہارت کیساتھ اس ڈرامے کو سلطانہ صدیقی کی رہنمائی حاصل ہے اور سلطانہ صدیقی نے اپنے دل سے قریب اس پراجیکٹ کی ہر ہر قدم کر رہنمائی اور نگرانی کی ہے۔ توقع ہے کہ من جوگی کی طرح نادان بھی عوامی توقعات پر پورا اترے گا ۔



Courtesy By HUM News

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top