(شازیہ انور)پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں اس وقت سب سے زیادہ اور سب سے بہترین ڈرامے دکھانے والے چینلوں میں ہم ٹی وی کا نام اہمیت کا حامل ہے۔
ہر اسپیل اور ہر سلاٹ میں دکھائے جانے والے ڈراموں نہ صرف تفریح پہنچاتے ہیں بلکہ کوئی نہ کوئی پیغام اور سماجی مسئلے پر بات بھی ہوتی ہے جسے ہر دیکھنے والا اپنے انداز سے دیکھتا ہے یہی وجہ ہے ہم کے ڈراموں پر مثبت اور منفی دونوں تنقید کی جاتی ہے۔
میں نے کبھی اپنے سابق شوہر کیخلاف کوئی بات نہیں، بشریٰ انصاری
گزشتہ دنوں ’’جفا‘‘ تنقید کی زد میں نظر آیا۔ وجہ تنقید ایک کم عمر لڑکی کا محبت میں مبتلا ہونا ہے اور اس حوالے سے کچھ مناظر پر بھی بات کی گئی ہے ‘ نوعمر طالبعلموں کے درمیان پیدا ہونے والے محبت کے جذبے کو منفی انداز دیتے ہوئے ڈرامے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ جفا کے ذریعے معاشرے کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔
اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو 16سے22سال کی عمر کے بچوں اور بچیوں کے‘ جو نوعمر طالبعلم ہی ہوسکتے ہیں کی عشق کی داستانیں گلی محلوں سے نکل کر اخباروں اور پھر سوشل میڈیا تک پہنچ چکی ہیں ۔
ڈرامہ معاشرے کے اس رنگ کو پردہ اسکرین پر پیش کرتے ہوئے اس امر کے نقصانات کو اجاگر کررہا ہے اور اپنے مدار سے ہٹ کر کسی جذبے کے حصار میں آنے والوں کے مستقبل پر روشنی ڈال رہا ہے۔
اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو یہ ڈرامہ بہت سے بچوں کیلئے سبق آموز ثابت ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ ڈرامے میں سحر خان کے کردار کو دیکھ کر بہت سی بچیاں اپنی حدود کو سمجھیں اور کوئی ایک چراغ بجھنے سے بچ جائے ۔باقی تنقید کرنے والوں کو کچھ اور نہیں میسر آتا تو وہ کپڑوں کی شکن پر ہی تنقید کرنے کو اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں۔
اس ڈرامے کو تحریر کیا ہے سمیرا فضل نے جبکہ ڈرامے کے ڈائریکٹر دانش نوازاورپروڈیوسر مومنہ درید پروڈکشن ہیں۔
ڈرامے کی کاسٹ میں سحر خان‘ عثمان مختار ‘عروہ حسین‘نادیہ افغن‘محب مرزا‘ نعمان مسعود‘ انعم احمد‘ ضرار ٹیپو خان‘ لیلیٰ زبیری ‘فرح حسین‘ عذرا منصور ‘ فرح ‘ شامل خان اور شیریں زاہد ۔ اس ڈرامے کو ہر جمعہ کی شب رات 8بجے دیکھا جاسکتا ہے۔
سانوری ‘ فیری ٹیل اور رنگ محل سے شناخت پانے والی سحر خان ڈرامے میں بی ایس سی کی اسٹوڈنٹ عندلیب کا مرکزی کردار انتہائی خوبی سے ادا کررہی ہیںجبکہ ان کے مقابل ضرار خان ہیں ‘ ڈرامے کی دوسری جوڑی محب مرزا اور ماوراحسین کی ہے۔
ڈرامے میں سحر خان کی اداکاری عروج پر ہے جہاں وہ اپنے ایک کلاس فیلو کی محبت میں گرفتار ہے اور جیساکہ معاشرے میں عام ہے بالکل اسی طرح سے ان کی محبت کو بچپنے کی غلطی سمجھتے ہوئے والدین ایک معاشی طور پر مستحکم گھرانے میں ایک ڈاکٹر نمبر)عثمان مختار)سے شادی کرادیتے ہیں جو شادی نہیں کرنا چاہتا ۔ شادی کے بعد بھی عندلیب اور معیز(ضرار )محبت کے سحر سے آزاد نہیں ہوپاتے ان کی زندگیاں مسائل کا شکار رہتے ہیں۔
ڈرامے کا دوسرا کر دار عندلیب کی خالہ زاد بہن ڈاکٹر (زارا )ماورا حسین اور کچھ نفسیاتی مسائل میں الجھے ہوئے ‘ غصے کے تیز مرد محب مرزا یعنی حسن کا ہے ۔یہ ایک ایسی جوڑی ہے جس میں ایک مرد کو ایک بااختیار عورت سے خوفزدہ دکھایا گیا ہے۔اس کے اس خوف کی وجہ سے ان کی شادی شدہ زندگی مسائل کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے ۔
شادی کے بعد ورکنگ ویمن کو درپیش مسائل ‘ خواتین کے مصالحانہ رویئے کے باوجود شوہروں کی جانب سے برتی جانے والی بے اعتنائی کے تانے بانے بنتی یہ کہانی دلچسپ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔
میں نے کبھی اپنے سابق شوہر کیخلاف کوئی بات نہیں، بشریٰ انصاری
گزشتہ شب اس ڈرامے کی بارہویں قسط پیش کی گئی جسے عوام کا بہترین رسپانس حاصل ہوا۔ جیسے جیسے ڈرامہ گے بڑھ رہا ہے ویسے ویسے اس کی مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے۔
امید ہے کہ اپنے اختتام تک عوام تک سمیرا فضل کا پیغام مکمل طور پر پہنچ جائے گا اور ایک بار پھر ہم ٹی وی عوام تک ایک بہترین پیغام کی رسائی کے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا ۔