بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا تکنیکی مشن پاکستان کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی اضافی فنانسنگ کی درخواست پر آج اسلام آباد میں بات چیت کا آغاز کرے گا۔ اس بات چیت کے بعد آئندہ ہفتے کے اوائل میں پالیسی کا جائزہ لیا جائے گا، جس میں جاری 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت حکام کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کی ٹیکنیکل ٹیم زیادہ تر اہم وزارتوں بشمول منصوبہ بندی، خزانہ، موسمیاتی تبدیلی، پیٹرولیم اور آبی وسائل کے ساتھ ساتھ فیڈرل بورڈ آف ریونیو، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسیوں اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں رہے گی۔
اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے ریزیڈنٹ نمائندے ماہیر بنیسی نے مزید تفصیلات بتائے بغیر تصدیق کی کہ اب سے تین ہفتوں تک ملاقاتیں جاری رہیں گی۔
آئی ایم ایف کے عملے کی ایک ٹیم مارچ کے وسط میں پاکستان کا دورہ کرے گی، جہاں وہ پاکستان کے توسیعی فنڈ سہولت کی معاونت سے چلنے والے پروگرام کے تحت پہلے جائزے اور حکام کی جانب سے لچک اور پائیداری سہولت (آر ایس ایف) انتظامات کے تحت امداد کی درخواست پر تبادلہ خیال کرے گی۔
اس سلسلے میں ایک ٹیکنیکل رواں ہفتے پاکستان آئے گی جو آر ایس ایف کے ممکنہ انتظامات سے متعلق تکنیکی امور پر تبادلہ خیال کرے گی۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ متعلقہ حکام خاص طور پر منصوبہ بندی اور خزانہ کی وزارتوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پالیسی مشورے کے مطابق آنے والے بجٹ کے لیے ماحولیات سے متعلق پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسیسمنٹ (سی-پیما) کے لیے دستاویزات تیار کی ہیں۔
39 ماہ پر محیط ای ایف ایف کے پہلے 2 سالہ جائزے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اب تک صرف ایک اسٹرکچرل بینچ مارک مکمل کیا ہے، تاہم بدلتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی میکرو اکنامک حالات کی وجہ سے کچھ اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے۔
واحد بقایا بینچ مارک دسمبر کے آخر تک ساورن ویلتھ فنڈ (ایس ڈبلیو ایف) میں ضروری ترامیم سے متعلق ہے، حالاں کہ گورننس اسٹرکچر اور مالی تحفظ کے بارے میں ان اداروں کی دیگر ذیلی شرائط پہلے ہی پوری کی جا چکی ہیں۔
وزارت منصوبہ بندی نے وفاقی وزارتوں اور صوبوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مستقبل کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے منصوبوں کے انتخاب کے معیار اور طریقہ کار سے بھی آگاہ کیا ہے۔
آئندہ بجٹ کے آغاز میں پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کے انتخاب کے لیے غور کیے جانے والے عوامل میں اسٹریٹجک اور بنیادی جاری منصوبے، 80 فیصد سے زائد اخراجات کے ساتھ جاری منصوبے اور حقیقت پسندانہ تکمیل کے تخمینے شامل ہوں گے۔
آئندہ بجٹ میں پی ایس ڈی پی منصوبوں کے انتخاب کے لیے غور کیے جانے والے عوامل میں اسٹریٹجک اور بنیادی جاری منصوبے، حقیقت پسندانہ تکمیل کے تخمینے کے ساتھ 80 فیصد سے زائد اخراجات کے ساتھ جاری منصوبے، غیر معمولی اور اعلیٰ اسکورنگ انفرا اسٹرکچر منصوبے، ورکنگ پارٹی کی سطح پر پہلے سے جانچ پڑتال کے بعد منظور شدہ منصوبے، مناسب رقم مختص کرنے والے غیر ملکی فنڈز والے منصوبے اور 20 کم ترقی یافتہ اضلاع میں صوبائی منصوبے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ماحولیات سے متعلق اور ماحولیاتی لچک والے منصوبے بھی پی ایس ڈی پی کا حصہ ہوں گے۔
آر ایس ایف کے تحت فنڈنگ ان ممالک کو فراہم کی جاتی ہے، جو موافقت کے ذریعے ماحولیات کی تباہ کاریوں کے خلاف لچک پیدا کرنے کے لیے اعلیٰ معیار کی اصلاحات کا عہد کرتے ہیں، اور یہ رقم 30 سال کی مدت کے لیے ہوتی ہے، جس میں 10 سال کی رعایتی مدت بھی شامل ہے، اور ای ایف ایف شرائط سے کم شرح سود پر یہ رقم دی جاتی ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان نے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف کو مزید ایک ارب 20 کروڑ ڈالر بڑھائے۔
ماحولیاتی لچک کی فنڈنگ
آئی ایم ایف پہلے ہی پاکستان کو مشورہ دے چکا ہے کہ وہ ہر سال جی ڈی پی کا ایک فیصد (موجودہ سال کے تخمینے کے مطابق ایک کھرب 24 ارب روپے سے زائد) موسمیاتی لچک اور موافقت کی اصلاحات میں سرمایہ کاری کرے، تاکہ شدید موسمی حالات، خاص طور پر سیلاب کے بار بار اور بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے، معاشی ترقی کو برقرار رکھنے اور عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے تیاری کی جاسکے۔
آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ ماحولیات سے مطابقت رکھنے والے بنیادی ڈھانچے میں اس طرح کی سرمایہ کاری قدرتی آفات کے خطرات کے منفی نمو کے اثرات کو ایک تہائی تک کم کر سکتی ہے، جب کہ تیز اور زیادہ مکمل بحالی کو یقینی بنا سکتی ہے۔
آئی ایم ایف نے نوٹ کیا کہ موافقت کے بنیادی ڈھانچے میں جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصد سرمایہ کاری پاکستان کی ماحولیاتی لچک میں اضافہ کرے گی، یہ سرمایہ کاری قدرتی آفات کے اثرات کو تقریباً ایک تہائی تک کم کرے گی، اور پاکستان کو اس کی سابقہ جی ڈی پی کی سطح پر زیادہ تیزی سے واپس لائے گی۔
سی پیما ایکشن پلان کے مطابق عوامی سرمایہ کاری کی کارکردگی میں اضافے سے اس طرح کی لچک میں مزید بہتری آئے گی۔
حکومت کی جانب سے سی پیما کو اپنایا گیا ہے، جس کی بنیاد پر پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف سے مزید فنانسنگ کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے، اور بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹ کے آپشنز پر غور کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ ماحولیاتی لچک بڑھانے کے لیے درکار اضافی سرمایہ کاری قرضوں کی سطح کو معتدل طور پر بلند کرنے کا باعث بنے گی، ایک ایسی صورت حال جس میں مالیاتی عوامل – کھپت اور انکم ٹیکس نے اس طرح کے خطرے کا جواب دیا ہے، بحالی کے بعد عوامی قرضوں کو نیچے کی طرف لے جائے گی، حالاں کہ کسی بڑی قدرتی آفت کے پیش نظر اس طرح کی پالیسی قابل عمل یا مطلوبہ نہیں ہوسکتی۔
آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ مالیاتی استحکام اور مالیاتی ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر مزید پیش رفت، مالیاتی گنجائش کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے، جو اس طرح کے جھٹکے کو برداشت کرنے کے لیے ضروری ہوگی۔