حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف مشن کے دورہ پاکستان سے قبل زیادہ تر شرائط پوری کر لیں، جب کہ باقی پر پیشرفت جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی 51 میں سے بیشتر شرائط پر عمل مکمل کیا جا چکا ہے، جب کہ جن شرائط کو فی الحال پورا نہیں کیا گیا اُن کے لیے آئی ایم ایف سے پیشگی اجازت حاصل کر لی گئی ہے۔
دستاویزات کے مطابق ششماہی بنیاد پر گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ نافذ کی جا چکی ہے، نئی ٹیکس چھوٹ یا استثنیٰ نہ دینے کی شرط پوری ہو گئی ہے، جب کہ چینی کی سرکاری درآمد پر ٹیکس چھوٹ آئی ایم ایف کی اجازت سے دی گئی۔
بجٹ 2025-26 آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق منظور کیا گیا، اور بجٹ سے ہٹ کر کسی بھی اخراجات کی پارلیمانی منظوری کی شرط بھی پر کی جا چکی ہے۔
مزید برآں، وفاق اور صوبوں کے درمیان فسکل پیکٹ پر عمل درآمد کیا گیا، ڈسکوز اور جینکوز کی نجکاری کے لیے پالیسی اقدامات جاری ہیں، جبکہ 2035 تک خصوصی اقتصادی زونز پر مراعات ختم کرنے کی شرط بھی لاگو ہو گئی ہے۔
حکومتی دستاویزات کے مطابق سرکاری اداروں میں حکومتی عمل دخل کم کرنے اور زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی کے لیے قانون سازی میں بھی نمایاں پیشرفت ہوئی ہے۔
دستاویزات کے مطابق اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں کمپلائنس رسک مینجمنٹ سسٹم نافذ کیا گیا ہے، ہائی لیول پبلک آفیشلز کے اثاثوں کی ڈکلیئریشن سے متعلق قانون سازی میں پیشرفت ہوئی۔
انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان 1.25 فیصد ایوریج پریمیئمم پر بھی عمل درآمد کیا گیا ہے۔
دستاویزات میں مزید بتایا گیا کہ گورننس اینڈ کرپشن اسیسمنٹ رپورٹ کی اشاعت سمیت بعض شرائط پوری نہ ہوئیں، آئی ایم ایف نے پہلےجولائی اور پھر اگست 2025 کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی۔
گورننس اینڈ کرپشن اسیسمنٹ پر ایکشن پلان کی شرط پوری نہ ہونے پر آئی ایم ایف کا سخت رد عمل متوقع ہے۔
دستاویزات کے مطابق صوبائی حکومتیں 1.2 ٹریلین کیش سرپلس کا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہیں، ایف بی آر گزشتہ مالی سال 12.3 ٹریلین روپے کا ٹیکس ہدف پورا نہ کر سکا۔
ایف بی آر تاجر دوست اسکیم کے تحت 50 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے میں بھی ناکام رہا جب کہ 10 حکومتی ملکیتی اداروں کے قوانین میں ترمیم کا ہدف بھی پورا نہ ہوسکا۔