بھارت کی جانب سے چاول پر بھاری سبسڈی اور سستی قیمتوں کے باوجود، پاکستانی برآمد کنندگان نے معیار اور حکمت عملی کے ذریعے عالمی منڈی میں اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے۔
بھارت کی برآمدات پر دی جانے والی بھاری سبسڈی کے باوجود پاکستان کی چاول کی برآمدات نمایاں طور پر متاثر نہیں ہوئیں، جس کی بڑی وجہ مقامی برآمد کنندگان کی وہ حکمت عملی ہے جو چابک دستی اور معیار کو ترجیح دیتی ہے۔
بھارت نے حال ہی میں دو سالہ پابندی کے بعد ایک بار پھر عالمی چاول مارکیٹ میں واپسی کی ہے، یہ پابندی ملک کے اندر غذائی تحفظ یقینی بنانے کے لیے عائد کی گئی تھی۔
نئی دہلی کی جانب سے برآمدات پر سے پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد بھارتی میڈیا میں خاصا جوش و خروش پایا گیا۔
میڈیا نے پیش گوئی کی کہ اس اقدام سے پاکستان کی چاول برآمدات کو شدید مالی نقصان پہنچے گا، حالانکہ ان دو برسوں کے دوران پاکستان کی برآمدات خاصی مستحکم رہی تھیں۔
بھارت کی واپسی سے قبل، جولائی تا ستمبر 2024 کے دوران پاکستان نے اوسطاً 5 لاکھ 50 ہزار ٹن چاول ماہانہ برآمد کیے۔
بھارتی حکام، تجارتی اداروں اور تھنک ٹینکس نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ سستا بھارتی چاول عالمی منڈی میں پاکستان کا حصہ کم کر دے گا۔
تاہم، پاکستانی برآمد کنندگان نے ایک فوری اور معیار پر مبنی حکمت عملی اپنائی، انہوں نے قیمتوں کی براہِ راست جنگ سے گریز کرتے ہوئے معیاری مصنوعات پر توجہ دی۔
چاول کے شعبے سے وابستہ ماہر حامد ملک کے مطابق، یہ حکمت عملی مؤثر ثابت ہوئی اور بھارت کی واپسی کے بعد اکتوبر 2024 سے مارچ 2025 تک کے چھ ماہ میں پاکستان کی چاول تجارت پر کوئی خاص منفی اثر نہیں پڑا۔
پاکستان نے اعلیٰ معیار کی مارکیٹوں جیسے کہ برطانیہ اور یورپی یونین میں اپنی موجودگی برقرار رکھی، جب کہ افریقی ممالک میں قیمت کے لحاظ سے حساس مارکیٹوں کو بھی متوازن معیار کے ساتھ پورا کیا گیا۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق مالی سال کے ابتدائی 11 ماہ میں پاکستان نے 55 لاکھ 44 ہزار ٹن چاول برآمد کیے، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 55 لاکھ 93 ہزار ٹن تھے، یوں صرف 0.87 فیصد کی معمولی کمی دیکھی گئی۔
پیداوار میں کمی
اب ایک نیا چیلنج درپیش ہے۔ 2024 کے خریف سیزن میں چاول کی پیداوار میں 3.7 فیصد کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں اپریل 2025 سے ذخائر تیزی سے کم ہونا شروع ہوگئے۔
اسی بنا پر اپریل تا جون 2025 کی آخری سہ ماہی میں برآمدات میں تقریباً 15 فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
ادھر بھارت، باسمتی اور نان باسمتی دونوں اقسام کے چاول نہایت سستی قیمتوں پر فروخت کر رہا ہے، جنہیں انڈسٹری ذرائع نقصان دہ حد تک سستی قرار دے رہے ہیں۔
بھارت اس وقت 25 فیصد ٹوٹے ہوئے نان باسمتی چاول کا سب سے سستا برآمد کنندہ ہے، جہاں فی ٹن قیمت 349 ڈالر (ایف او بی) مقرر ہے، جب کہ تھائی لینڈ (376 ڈالر)، ویتنام (362 ڈالر) اور پاکستان (365 ڈالر) کے نرخ اس سے زیادہ ہیں۔
یہ جارحانہ قیمتیں کئی سوالات کو جنم دے رہی ہیں، کیونکہ بھارتی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ نان باسمتی دھان کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) 265 ڈالر فی ٹن ہے۔
66 فیصد ملنگ ریکوری کی بنیاد پر چاول کی فیکٹری سے نکلنے والی لاگت تقریباً 330 ڈالر فی ٹن بنتی ہے اور جب ٹرانسپورٹ، بندرگاہی ہینڈلنگ، پیکنگ اور ویرف چارجز جیسے اخراجات جو کہ تقریباً 55 ڈالر ہیں شامل کیے جائیں، تو اصل ایف او بی قیمت تقریباً 385 ڈالر فی ٹن بنتی ہے۔
یہ واضح فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت کی سبسڈی گہری نوعیت کی ہے اور ممکنہ طور پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے اصولوں سے متصادم ہے۔
درحقیقت، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے ڈبلیو ٹی او میں بھارت کے خلاف شکایات درج کرائی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے دوحہ معاہدے میں طے شدہ 10 فیصد سبسڈی کی حد کو عبور کیا ہے۔
سبسڈی کے باوجود، بھارت کی چاول برآمدات اپریل اور مئی 2025 میں سال بہ سال 50 فیصد کم ہو گئیں، جس پر خود بھارت میں بھی تنقید کی جارہی ہے۔
چاول کے معروف مورخ اور مصنف چندرشیکھرن سمیت متعدد برآمد کنندگان نے حکومت کی پالیسی پر سوالات اٹھائے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چاول کو ایتھنول کی پیداوار کے لیے منتقل کرنا، فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے گوداموں میں 3 کروڑ 90 لاکھ ٹن چاول اور 1 کروڑ 95 لاکھ ٹن دھان کا بڑھتا ہوا ذخیرہ، عوامی تقسیم کے نظام کی خرابیاں اور کم از کم برآمدی قیمت (ایم ای پی) کا خاتمہ، یہ تمام عوامل حکومت کی برآمدی پالیسی پر نظرِثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں بھارت کی سبسڈی پر مبنی پالیسی کی نگرانی بڑھ رہی ہے اور پاکستان کے برآمد کنندگان بھی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، تاکہ وہ معیار، لچک اور حکمت عملی کے ساتھ اپنی پوزیشن کا دفاع کر سکیں۔