سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین نے کہا ہے کہ جب تک کوئی نئی ترمیم نہیں آتی، موجودہ آئین ہی نافذ العمل ہے اور وکلاء سمیت سب کو اسی پر انحصار کرنا ہوگا،ہمارے بس میں نہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے پیچھے چلے جائیں۔
سپریم کورٹ کے 8 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان، جسٹس شاہد بلال شامل تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اس وقت 26 ویں ترمیم کا حصہ ہے یا نہیں؟ اس موقع پر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اگر فل کورٹ ترمیم کو کالعدم قراردے تو یہ پہلے دن سے ختم تصور ہو گی۔
اورکزئی میں جھڑپ ، لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 جوان شہید ، 19 خارجی ہلاک
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ جب تک کالعدم ہو نہ جائے تب تک تو آئین کا حصہ ہے ناں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اسی ترمیم کے تحت بنے بینچ کے سامنے آئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک ترمیم کو معطل نہیں کیا گیا۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم اور وکلاء آئین پر انحصار کرتے ہیں،جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے قبل جوڈیشل کمیشن میں ججز اکثریت میں تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بینچ کے اختیارات سے متعلق بتائیں، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کمیشن میں پارلیمنٹری کمیٹی کو شامل کردیاگیاہے،جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ عدالت کو بتا دیں کیوں 16 رکنی بینچ بنا دیں؟
حامد خان نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم سے ججز کی اکثریت ختم ہوگئی۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایک ترمیم ہوچکی، آپ مان رہے یا نہیں؟ وکیل حامد خان نے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم کو ہم نہیں مان رہے۔
احتجاج کیس ، علیمہ خان کو گرفتار کرکے عدالت پیش کرنے کا حکم
جسٹس امین الدین نے کہا کہ فی الحال ایسی اسٹیج پر نہیں کہ کیس کو کون سنے گا، ممکنہ طور پر ایک ماہ تک سماعت ہو کہ کون کیس سنے گا، کس بنیاد پر کہہ رہے کہ ہم نہیں سن سکتے؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہمارے بس میں نہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم سے پیچھے چلے جائیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ سنے یا بینچ؟ جوڈیشل آرڈر کو کوئی نہیں روک رہا، جوڈیشل آرڈر کے بعد پراسس چلتا رہتاہے، انہوں نے استفسار کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم میں فل کورٹ کو کہاں روکا جا رہا ہے؟
وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ 26ویں آئینی ترمیم میں فل کورٹ بنانے کو کوئی نہیں روک رہا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم فی الحال آئین کا حصہ ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ بینچ کو بنانے والی اتھارٹی کے سامنے کیا آپ نے درخواست دی؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ بینچ کی فارمیشن کو چیلنج کررہے ہیں جو 26ویں آئینی ترمیم کے اثرات میں بنا۔
کاشتکاروں سے گندم خریدنے کیلئے حکومت پنجاب اور پرائیویٹ سیکٹر میں معاہدہ
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کرکے دیں؟
وکیل حامد خان نے کہاکہ آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے، آپ تھوڑی دیر کیلئے آرٹیکل 191اے کو بھول جائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بھول جائیں تو پھرآئینی بینچ ہی ختم، پھرہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا۔
اس موقع پر وکیل حامدخان نے ماضی میں کیسزکے لئے تشکیل دیئے گئے فُل کورٹس کا حوالہ دیا۔