امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس اور اسرائیل غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے کسی متفقہ معاہدے تک نہیں پہنچے، تو امریکی حکومت اپنا متبادل امن فارمولا پیش کرے گی تاکہ خطے میں فوری جنگ بندی اور دیرپا امن کی راہ ہموار کی جا سکے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائنا لیوٹ نے واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ صدر ٹرمپ اس معاملے میں براہِ راست طور پر ملوث ہیں اور ان کی اولین ترجیح یرغمالیوں کی جلد رہائی ہے۔
انہوں نے کہا، “صدر ٹرمپ غزہ میں امن کے خواہاں ہیں، اور اگر فریقین کسی معاہدے پر نہیں پہنچ پاتے تو ہم اپنی جانب سے ایک ٹھوس اور قابلِ عمل فارمولا پیش کریں گے۔”
وائٹ ہاؤس کے مطابق اس وقت غزہ میں تکنیکی ٹیموں کے درمیان بات چیت جاری ہے، جس میں بنیادی توجہ اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر مرکوز ہے۔ لیوٹ نے مزید کہا کہ “یرغمالیوں کی رہائی کے بعد ہماری اگلی ترجیح مستقل امن کے قیام کی ہوگی۔”
ذرائع کے مطابق شرم الشیخ میں ہونے والے یہ مذاکرات امریکا کی امن تجویز کے تحت جاری ہیں، جن میں اسرائیلی اور حماس وفود کے علاوہ مصری حکام بطور ثالث کردار ادا کر رہے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق یہ بالواسطہ مذاکرات ہیں جن میں مرحلہ وار جنگ بندی، قیدیوں کا تبادلہ اور انسانی امداد کی فراہمی پر بات چیت ہو رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں لیوٹ نے کہا کہ “تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ناگزیر ہے، اور صدر ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی فریم ورک کو اصولی طور پر قبول کیا جا چکا ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ امریکی انتظامیہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے، جب کہ مذاکرات میں پہلی بار فلسطینی سیاسی قیدیوں کی فہرست بھی زیرِ غور آئی ہے۔
دلچسپ طور پر لیوٹ نے انہیں ’سکیورٹی قیدی‘ قرار دیا جو ممکنہ طور پر زبان کی لغزش تھی، تاہم مبصرین کے مطابق یہ اصطلاح امریکی مؤقف میں نئے زاویے کی نشاندہی بھی کر سکتی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا 5 اکتوبر کو دی گئی صدر ٹرمپ کی آخری تاریخ اب بھی برقرار ہے، تو لیوٹ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ “ہم وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے، امن کے لیے ہر لمحہ قیمتی ہے۔”
تو انہوں نے کہا کہ حماس نے جمعہ کو ایک واضح بیان جاری کر کے صدر کے فریم ورک کو قبول کیا ہے اور اسی لیے تکنیکی مذاکرات جاری ہیں۔
مذاکرات کی مدت کے بارے میں پوچھے جانے پر ترجمان وائٹ ہائوس لیوٹ نے کوئی خاص جواب دینے سے گریز کیا۔
لیکن کہا کہ ”یہ ضروری ہے کہ یہ معاملہ جلد از جلد طے پائے تاکہ یرغمالی آزاد ہوں اور اس کے بعد ہم مستقل اور دیرپا امن قائم کرنے کی طرف بڑھ سکیں۔
تاکہ غزہ دوبارہ ایسی جگہ نہ بنے جو اسرائیل یا امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔“
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے دو مراحل ہیں، پہلا یرغمالیوں کی رہائی اور دوسرا جنگ کے بعد غزہ کی پائیدار امن و استحکام کی فراہمی ہے۔
داخلی سیاسی تنازع بھی شدت اختیار کرگیا
کیرولائنا لیوٹ نے بتایا کہ غزہ تنازع کے ساتھ ساتھ امریکا میں سیاسی کشیدگی بھی عروج پر ہے۔ حکومتی شٹ ڈاؤن سے بچنے کیلئے ہمیں 5 ڈیموکریٹس کے ووٹ درکار ہیں، مگر ڈیموکریٹس رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ”ڈیموکریٹس نے ہزاروں امریکیوں کی نوکریاں داؤ پر لگا دی ہیں۔ ان کی ترجیحات میں غیر قانونی ایلینز پہلے اور امریکی عوام بعد میں ہیں۔“
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے نمائندوں پر دباؤ ڈالیں تاکہ حکومت کھولی جا سکے اور ملکی معیشت کو مزید نقصان نہ ہو۔