غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے حماس، اسرائیل اور ثالث ممالک کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں مکمل ہوگیا، جب کہ بات چیت کا دوسرا مرحلہ آج دوبارہ شروع ہوگا۔ ذرائع کے مطابق حماس وفد کی قیادت سینئر رہنما خلیل الحیہ نے کی، جبکہ امریکی خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر بھی مذاکرات میں شریک ہوئے۔
رات گئے تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں قطر اور مصر کے وفود نے بطور ثالث شرکت کی۔
فلسطینی عہدیداروں کے مطابق حماس نے یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی انخلا اور جنگ بندی کی ٹائم لائن سے متعلق اپنا موقف پیش کیا۔
عرب میڈیا کے مطابق حماس نے چھ سرکردہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں بڑے پیمانے پر امداد کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی ضمانت چاہتی ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل معاہدے کی مکمل پاسداری کرے۔
اسرائیلی سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال توجہ یرغمالیوں کی رہائی پر مرکوز ہے، جبکہ حماس کو چند دن کا وقت دیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل ٹرمپ امن منصوبے کے تحت ابتدائی مرحلے میں اپنی فوج کو “زرد لکیر” تک واپس بلانے پر تیار نہیں بلکہ اسٹریٹجک بفر زون قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
جس کے بعد مزید انخلا فریقین کے درمیان طے شدہ شرائط پر منحصر ہوگا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے تصدیق کی کہ صدر ٹرمپ یرغمالیوں کی فوری رہائی چاہتے ہیں تاکہ اگلے مرحلے کی جانب پیشرفت ہو سکے۔
ان کے مطابق مذاکرات میں یرغمالیوں اور سیاسی قیدیوں کی فہرستوں پر بات چیت جاری ہے۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ نے مذاکراتی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ دو سالہ غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے تیز رفتاری سے پیشرفت کرے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر حماس نے غزہ کا کنٹرول چھوڑنے سے انکار کیا تو “اس کے مکمل خاتمے کا آپشن زیرِ غور رہے گا۔”