اسٹیج تھری یا اس کے بعد علاج سے صحت یابی کا امکان لگ بھگ ناممکن ہوتا ہے جبکہ موجودہ عہد کا طرز زندگی لوگوں کو اس مرض کا آسان شکار بنارہا ہے۔
انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2018 میں کینسر کے ایک کروڑ 81 لاکھ نئے کیسز سامنے آئے جن میں سے 96 لاکھ مریض چل بسے۔
کینسر کے شکار ہونے یا بچنے میں آپ کی غذا کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ متعدد غذائیں ایسے مفید مرکبات سے بھرپور ہوتی ہیں جو کینسر کے پھیلنے کی رفتار کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی طرح چند غذاؤں کا زیادہ استعمال اس جان لیوا بیماری کا خطرہ کم کرنے کے لیے موثر سمجھی جاتی ہیں۔
گاجر
متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ گاجروں کو کھانا کینسر کی مخصوص اقسام کا خطرہ کم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 5 تحقیقی رپورٹس کے ایک تجزیے میں دریافت کیا گیا کہ گاجروں کو کھانے سے معدے کے کینسر کا خطرہ 26 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس سبزی کا استعمال مثانے کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ 18 فیصد تک کم کرتا ہے۔
پھیپھڑوں کے کینسر کے شکار اور صحت مند 1266 افراد کی غذائی عادات پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تمباکو نوشی کے عادی ایسے افراد جو گاجر کھانا پسند نہیں کرتے، ان میں پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی گاجر ایک صحت بخش سبزی ہے جس کو غذا کا حصہ بنانا صحت کے لیے مفید ہوسکتا ہے۔
بیج
بیج فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں اورر کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق یہ آنتوں کے کینسز سے تحفظ میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ آنتوں کے کینسر کی تاریخ رکھنے والے 2 ہزار کے قریب افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ پکے ہوئے خشک بیج کھانے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں رسولی دوبارہ ابھرنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ جانوروں پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان کے کھانے سے چوہوں میں قولون کینسر کے خلیات بننے کا امکان 75 فیصد تک کم ہوگیا۔
دارچینی
دارچینی کو طبی فوائد کے حوالے سے جانا جاتا ہے جو بلڈ شوگر اور ورم میں کمی لانے میں مددگار ہے۔ کچھ ٹیسٹ ٹیوب اور جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں یہ دریافت کیا کہ دارچینی کینسر کے خلیات کو پھیلنے سے روکنے میں مددگار ہوسکتی ہے۔
ایک ٹیسٹ ٹیوب تحقیق (ایسی تحقیق جو انسانوں یا جانوروں کی بجائے ایک گلاس کی بوتل پر ہو) میں دریافت کیا گیا کہ دارچینی ایکسٹریکٹ کینسر کے خلیات پھیلنے کی رفتار کم کرنے اور انہیں ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایک اور ٹیسٹ ٹیوب تحقیق میں ثابت ہوا کہ دارچینی کا تیل سر اور گلے کے کینسر کے خلیات کو دبا سکتا ہے اور رسولی کے حجم کو بھی نمایاں حد تک کم کرسکتا ہے۔ جانوروں پر ہونے والی ایک تحقیق میں ثابت ہوا کہ دارچینی کا ایکسٹریکٹ رسولی کے خلیات کو ختم کرسکتا ہے۔
2 سے 4 گرام دارچینی کا روزانہ غذا میں استعمال کینسر سے تحفظ کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے دیگر فوائد جیسے بلڈ شوگر کی سطح اور ورم میں کمی بھی ہیں۔ تاہم انسانوں میں کینسر سے تحفظ کے حوالے سے اس کے اثرات پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
گریاں
طبی تحقیق میں ثابت ہوچکا ہے کہ گریاں کھانے کی عادت اور کینسر کی مخصوص اقسام کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے۔ مثال کے طور پر 19 ہزار سے زائد افراد کی غذائی عادات پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گریوں کی زیادہ مقدار کھانے سے کینسر سے موت کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
ایک اور تحقیق میں 30 ہزار سے زائد افراد کا جائزہ 30 سال تک لیا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ گریاں کھانا معمول بنانے سے لبلبلے، colorectal اور endometrial کینسر کا خطرہ کم ہوا۔ دیگر تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ مخصوص اقسام کی گریاں کینسر کے خطرے میں کمی میں زیادہ مددگار ہوتی ہیں۔
جیسے جانوروں پر ہونے والی ایک تحقیق میں ثابت ہوا کہ چوہوں کو اخروٹ استعمال کرانے سے بریسٹ کینسر کے خلیات کی نشوونما کی شرح 80 فیصد جبکہ رسولیوں کی تعداد 60 فیصد تک کم ہوگئی۔ آسان الفاظ میں بادام، اخروٹ یا دیگر گریوں کی کچھ مقدار روزانہ غذا کا حصہ بنانا مستقبل میں کینسر کے شکار ہونے کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔
زیتون کا تیل
زیتون کے تیل کو صحت کے لیے بہت مفید قرار دیا جاتا ہے اور متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ زیتون کے تیل کا زیادل استعمال ممکنہ طور پر کینسر سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ 19 تحقیقی رپورٹس کے ایک تجزیے میں ثابت ہوا کہ جو لوگ زیادہ مقدار میں زیتون کے تیل کو جزوبدن بناتے ہیں، ان میں بریسٹ اور نظام ہاضمہ کے کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن ممالک میں زیتون کے تیل کا زیادہ استعمال ہوتا ہے وہاں colorectal کینسر کی شرح بھی کم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے جن میں زیتون کے تیل سے کینسر پر مرتب ہونے والے براہ راست اثرات کی جانچ پڑتال کی جائے۔
ہلدی
ہلدی کے فوائد کا ذکر تو صدیوں سے کیا جارہا ہے خاص طور پر اس کا جز Curcumin ورم کش، اینٹی آکسائیڈنٹ اور کینسر کش اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ ایک تحقیق میں اس جز کے اثرات کا جائزہ 44 مریضوں میں لیا گیا جن کے قولون میں موجود زخم کینسر زدہ ہوگئے تھے، 30 دن تک روزانہ 4 گرام اس جز کے استعمال سے زخموں میں 40 فیصد کمی آئی۔
ایک ٹیسٹ ٹیوب تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہلدی کا یہ خاص جز قولون کینسر کے خلیات کے پھیلنے کی شرح کو نمایاں حد تک کم کرتا ہے جس کے لیے وہ ایسے انزائمے کو ہدف بناتا ہے جسے کینسر کی نشوونما سے جوڑا جاتا ہے۔
اسی طرح یہ جز پھیپھڑوں، بریسٹ اور مثانے کے کینسر کے خلیات کی نشوونما سست کرنے کے حوالے سے ٹیسٹ ٹیوب تحقیقی رپورٹس میں موثر ثابت ہوا۔ تو روزانہ ایک سے 3 گرام ہلدی کو اپنی غذا کا حصہ بناکر جزوبدن بنانا کینسر سے تحفظ میں مددگار ہوسکتا ہے اور کالی مرچ کا اضافہ بھی کردیا جائے تو اس کے جذب ہونے کی صلاحیت زیادہ بہتر ہوجاتی ہے۔
ترش پھل
مالٹے، گریپ فروٹ، لیموں جیسے ترش پھلوں کا استعمال بھی کینسر کا خطرہ کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد زیادہ مقدار میں ترش پھل کھانے کے عادی ہوتے ہیں ان میں ہاضمے اور نظام تنفس کی اوپری نالی کے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان پھلوں کا زیادہ استعمال لبلبلے کے کینسر کا خطرہ کم کرتا ہے۔ ایک اور تحقیقی تجزیے میں ثابت ہوا کہ ہفتہ بھر میں کم از کم 3 بار ان پھلوں کا استعمال معدے کے کینسر کا خطرہ 28 فیصد تک کم کردیتا ہے۔ یعنی ہر ہفتے کھ مقدار میں ان پھلوں کی کچھ مقدار کا استعمال کینسر کی مخصوص اقسام سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔
السی کے بیج
فائبر سے بھرپور ہونے کے ساتھ ان میں دل کی صحت کے لیے مفید کنائی ہوتی ہے اور کچھ تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ یہ کینسر کی نشوونما کو سست کرنے اور کینسر زدہ خلیات کو ختم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
بریسٹ کینسر کی شکار 32 خواتین پر ہونے والی ایک تحقیق میں انہیں السی کے بیجوں سے سجے مفن یا placebo (بطور دوا کے دیا جانے والا ایک بے ضرر مواد) ایک ماہ تک کھلائے گئے۔ تحقیق کے اختتام پر دریافت کیا گیا کہ السی کے بیج والےگروپ میں رسولی کی نشوونما میں کمی آئئی ہے جبکہ کینسر سے متاثر خلیات ختم ہونے کی شرح بڑھ گئی۔
ایک اور تحقیق میں مثانے کے کینسر کے شکار 161 مریضوں میں دریافت کیا گیا کہ السی کے بیجوں سے کینسر زدہ خلیات کی نشوونما اور پھیلاؤ میں کمی آئی۔ روزانہ 10 گرام السی کے بیجوں کے سفوف کو غذا کا حصہ بنانا اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
ٹماٹر
ٹماٹروں میں موجود جز لائیکوپین کینسر کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا ہے کہ لائیکو پین اور ٹماٹروں کا استعمال بڑھانے سے مانے کے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ 17 تحقیقی رپورٹس کے ایک تجزیے میں دریافت کیا گیا کہ کچے یا پکے ہوئے ٹماٹروں کا استعمال مثانے کے کینسر کا خطرہ کم کرتا ہے۔
47 ہزار سے زائد افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے۔ کینسر سے تحفظ کے لیے روزانہ اپنی غذا میں ایک یا 2 ٹماٹروں کا اضافہ کرلیں تو بہتر ہے۔
لہسن
لہسن میں موجود جز آلیسین کو متعدد ٹیسٹ ٹیوب تحقیقی رپورٹس میں کینسر زدہ خلیات کے خاتمے میں مددگار دریافت کیا گیا ہے۔ متعدد تحقیقی رپورٹس میں بھی لہسن کے استعمال اور کینسر کی مخصوص اقسام کے خطرے میں کمی کے تعلق کو دریافت کیا گیا۔
ساڑھے 5 لاکھ کے قریب افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ بہت گنٹھل دار سبزیاں جیسے لہسن، پیاز وغیرہ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، ان میں معدے کے کینسر کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ اسی طرح 471 مردوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لہسن کا زیادہ استعمال مثانے کے کینسر کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔
ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ بہت زیادہ لہسن کے ساتھ ساتھ پھلوں، زرد رنگ کی سبزیوں، سبز پتوں والی سبزیوں اور پیاز کھانے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں colorectal کینسر کی رسولیاں بننے کا خطرہ کم ہوتا ہے، تاہم اس تحقیق میں لہسن کے اثرات کا الگ سے جائزہ نہیں لیا گیا۔
ان نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو روزانہ 2 سے 5 گرام لہسن کا استعمال صحت کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
مچھلی
کچھ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ ہر ہفتے کچھ مقدار میں مچھلی کھانا کینسر کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھلی کی زیادہ مقدار جزوبدن بنانا نظام ہاضمہ کی نالی کے کینسر کا خطرہ کم کرتا ہے۔
4 لاکھ 78 ہزار سے زائد افراد پر ہونے والی ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھلی کی زیادہ مقدار کھانا colorectal کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے جبکہ سرخ اور پراسیس گوشت یہ خطرہ بڑھتا ہے۔
خاص طور پر ربی والی مچھلی کینسر کے خطرے میں کمی کے لیے زیادہ مفید ہے، جس کی وجہ وٹامن ڈی اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی موجودگی ہے۔ خیال رہے کہ وٹامن ڈی کی مناسب سطح جسم کو کینسر سے بچانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔