ٹی وی پر جرائم سے متعلق خبریں، ڈاکیومنٹریز، عدالتوں کے مناظر، اور سچے واقعات پر مبنی سیریز دیکھنا صرف سنسنی یا تفریح کا ذریعہ نہیں رہا، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ ایک حالیہ بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران خواتین کی جرائم سے متعلق مواد میں دلچسپی مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھی ہے۔
یہ رجحان صرف امریکا یا یورپ تک محدود نہیں، بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین اس طرح کے مواد میں خاصی دلچسپی رکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ، کیا یہ تجسس ہے؟ خوف؟ یا کچھ اور؟
آئیے جانتے ہیں۔امریکی ویب سائٹ ’سائیکلوجی ٹوڈے‘ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کی اس دلچسپی کی وجہ محض سنسنی نہیں بلکہ کئی گہرے نفسیاتی اور سماجی عوامل ہیں، جنہیں ہم عام طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
خوف پر قابو پانے کی مشق:
جرائم پر مبنی خبریں یا شوز دیکھنا خواتین کے لیے ایک طرح کا ذہنی تربیتی عمل بن چکا ہے۔ کیونکہ خواتین عموماً معاشرتی اور گھریلو سطح پر پرتشدد رویوں کا شکار ہوتی ہیں، اس لیے یہ مواد انہیں نہ صرف خطرات کو پہچاننے بلکہ ان سے نمٹنے کی تیاری کا موقع بھی دیتا ہے۔
جذباتی نظم و ضبط اور خود فہمی:
ایسے پروگرامز دیکھنے سے خواتین اپنے اندر موجود خوف، غصے، یا ماضی کے تلخ تجربات کو کسی حد تک سمجھنے اور قابو میں لانے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہ عمل ان کے جذبات کو ایک محفوظ فضا میں ظاہر کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
علم اور احتیاط کی حکمتِ عملی:
سچے جرائم کی کہانیاں خواتین کو سکھاتی ہیں کہ کس طرح خطرے کی نشانیوں کو پہچانا جا سکتا ہے، اور کسی واقعے کے بعد کس طرح ردِعمل دینا مناسب ہے۔
یہ علم انہیں روزمرہ زندگی میں مزید چوکنا اور باخبر بناتا ہے۔
تنہائی میں سماجی رشتہ:
بہت سی خواتین ان پروگرامز کے میزبان یا متاثرین سے ذہنی طور پر جڑ جاتی ہیں۔ ان کا درد، کہانی، اور جدوجہد انہیں اپنی ذات یا کسی قریبی فرد سے جوڑتی ہے۔
یوں وہ اپنی کہانیوں کو ان میں ڈھونڈتی ہیں اور تنہائی کے احساس پر قابو پاتی ہیں۔
نفسیاتی فوائد:
ماہرین نفسیات کے مطابق انسان ایسے میڈیا کا انتخاب کرتا ہے جو اس کی نفسیاتی، جذباتی اور سماجی ضروریات پوری کرے۔
جرائم پر مبنی مواد خواتین کے لیے کئی حوالوں سے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، مثلا ہر کیس، ہر واردات ایک سوال کھڑا کرتا ہے۔
خواتین کی تجسس پسندی انہیں حل تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے یہ بات ان کی تجزیاتی صلاحیت کو مزید جلا بخشتی ہے۔
ایسے مواد سے گزر کر خواتین اپنے جذبات کو بہتر انداز میں سمجھتی اور ان پر قابو پانا سیکھتی ہیں۔
اس کے علاوہ دوسرے کی غلطی یا مصیبت کو دیکھ کر خود بہتر فیصلے کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ اور اس سے تحفظ کا شعورپیدا ہوتا ہے۔
یہ کہانیاں صرف سننے سنانے کے لیے نہیں، بلکہ احساسات کے اظہار، انصاف کی تلاش، اور خود شناسی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔
کئی خواتین ان کہانیوں سے متاثر ہو کر اپنی ذاتی کہانیوں کو بھی دوسروں کے ساتھ شیئر کرتی ہیں، یوں ایک اجتماعی جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، جیسے جیسے حقیقی جرائم پر مبنی مواد مقبول ہو رہا ہے، ویسے ہی اخلاقی حدود کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
متاثرین کی رازداری، ان کے دکھ کا احترام، اور انصاف کی اہمیت کو ہمیشہ مقدم رکھا جانا چاہیے۔
خواتین کا جرائم سے متعلق مواد میں دلچسپی لینا کسی کمزوری یا منفی رجحان کا اظہار نہیں، بلکہ یہ ذہنی تربیت، خود آگاہی، اور تحفظ کے شعور کا عمل ہو سکتا ہے۔
البتہ ہر چیز میں توازن ضروری ہے، ویسے ہی ایسے مواد کو بھی حد میں رہ کر، سیکھنے کی نیت سے دیکھنا ہی بہتر عمل ہوگا۔