مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا؟ جسٹس جمال مندوخیل

مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا؟ جسٹس جمال مندوخیل


اسلام آباد: جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا ؟

سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل حامد خان نے دلائل دیئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی علی کیس میں طے ہوا کہ آرمی ایکٹ فوج کے ممبران کے لیے بنا۔ اسی کیس میں یہ بھی کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن ڈی اس مقصد کے لیے نہیں بنا۔

انہوں نے کہا کہ اب تنازع یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ایف بی علی کیس میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت تھی۔ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اجازت نہیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حق میں دلائل دینے والوں کا انحصار آئین کے آرٹیکل 8 (3) پر ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی میں کہا گیا کہ پارلیمان اس معاملے پر 2 سال میں ری ویو کر سکتی ہے۔ لیکن آج تک پارلیمان نے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے سانحہ 9 اور 10 مئی کے تمام مقدمات ڈی لسٹ کر دیئے

جسس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ تنازع یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہو گا ؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں؟

حامد خان نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں شامل وہ شقیں جن کے تحت سویلین کا ٹرائل کیا جاتا ہے وہ غیر آئینی ہیں۔



Courtesy By HUM News

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top